کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 117
”اور تمھارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمھارے بستروں کو کسی ایسے شخص کے ساتھ نہ روندھیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔“ چنانچہ عورت کے لیے قطعاً جائز نہیں کہ اپنے خاوند کے گھر میں ایسے آدمی کو داخل ہونے کی اجازت دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتاہے،چاہے وہ قریبی سے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو،کیونکہ گھر بھی اس کا ہے اور حق بھی اس کا ہے،اسی طرح عورت پرواجب ہے کہ خاوند کے دیگر حقوق کو بھی پورا کرے،جب وہ اسے بستر کی طرف بلائے تو عورت پر لازم ہے کہ اس کی اطاعت کرے،جب تک کہ کوئی مضرت یا فرائض الٰہیہ میں سے کسی فرض کے ضائع ہونے کاخطرہ نہ ہو،اگر اس نے خاوند کا کہا نہ مانا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((إذا دعا الرجل إمراته الى فراشه فأبت أن تجى لعنتها الملائكة حتى تصبح))[1] ”جس نے اپنی بیوی کو بستر کی طرف بلایا اور اس نے آنے سے انکار کردیاتو صبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں“ نیز وہ حقوق جو مطلق اورعرف کے اعتبار سے ہیں تو یہ مختلف ہوتے رہتے ہیں،مثلاً یہ کہ کیا عورت پر لازم ہے کہ وہ گھریلو کام کاج جیسا کہ پکانا اور کپڑےدھونا وغیرہ میں خاوند کی خدمت کرے؟ہم کہتے ہیں کہ یہ عرف کے اعتبار سے ہے،اگر لوگوں کی عادت اور رسم ورواج اس نوعیت کا ہے کہ عورت ان کاموں کو سرانجام دیتی ہے تو بیوی لازماًان کاموں کو سرانجام دے گی اوراگر معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا،بلکہ بیوی کے علاوہ کوئی اور ان کاموں کو نبھاتا ہے تو عورت پر لازمی نہیں ہے ،صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی بیویاں ایسے کام کاج سرانجام دیتی
[1] ۔متفق عليه۔صحيح البخاري (3237) صحيح مسلم(120/1436)