کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 105
اور اس کے مقابلے میں ٹھوس ثبوت پیش کیے ہیں ،اور ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے عبداللہ کی ناپسندیدگی اس ڈر سے تھی کہ کہیں مسلمان کتابیہ عورتوں سے نکاح میں زیادہ دلچسپی لینے نہ لگ جائیں اور مسلمان خواتین کو چھوڑ دیں۔اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین والیوں سے نکاح کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور بلاشک مسلمان عورت کتابیہ عورت سے بہتر ہے۔(اللجنة الدائمة:2229) 99۔رافضیہ عورت سے نکاح۔ سنی کے لیے رافضیہ عورت سے شادی جائز نہیں اور اگر نکاح ہوگیا تو فسخ لازم ہے،کیونکہ ان کے بارے میں معروف ہے کہ اہل بیت کو پکارتے اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں،اوریہ شرکِ اکبر ہے۔ (اللجنة الدائمة:2165) 100۔چچا کی وفات یا اس کے چچی کو طلاق دینےکے بعد چچی سے نکاح کا حکم۔ دریں صورت چچی سے نکاح جائزہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان: ((وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًاحُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ)) (النساء:23۔24) ”اور ان عورتوں سے نکاح مت کروجن سے تمہارے باپ نکاح کرچکےہوں،مگر جو پہلے گزرچکا،بے شک یہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی اور سخت غصے کی بات ہے اور برُا راستہ ہے۔“