کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 104
مردوں میں شامل نہیں ہیں، جس طرح کہ آیت ہے: ((لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ)) (البينة:1) ”وہ لوگ جنھوں نے اہل کتاب اور مشرکین میں سے کفر کیا،باز آنے والے نہ تھے،یہاں تک کہ ان کے پاس کھلی دلیل آئے۔“ اس طرح وہ اس آیت کریمہ میں مذکورہ مشرکین میں بھی شامل نہیں ہیں: ((إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَىٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللّٰهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) (الحج :17) ”بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو یہودی بنے اور صابی اور نصاری اور مجوس اور وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا،یقیناً اللہ ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا۔“ یا یہ کہا جائے کہ کتابیہ عورتیں بھی آیہ بقرہ میں مذکورہ مشرکات کے عموم میں داخل تھیں،لیکن آیہ مائدہ نے کتابیات کا استثناء کردیا،بہرحال دونوں اقوال کے باوجود آیات میں کوئی تعارض نہیں ہے،نہی والی آیت کفار کی ایک قسم پر دلالت کرتی ہے،جبکہ جواز والی آیت کفار کی دوسری قسم پر دلالت کرتی ہے،جمہور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے یہی کہاہے،اگرچہ ان کا اجماع نہیں ہے،امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا جواز پر اجماع نقل کیاہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے یہودیہ عورت سے شادی اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے نصرانیہ عورت سے شادی پرانکار کیا تھا،اُس پرباعتبار سند ضعیف ہونے کا حکم لگایا