کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 101
کے داخل درخطاب ہونے میں مانع نہیں ہے،کیونکہ اصول یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہوتو اُمت بھی بالتبع اس میں شامل ہوتی ہے،الا یہ کہ حکم کی تخصیص کی دلیل مل جائے کہ یہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے،جس طرح کہ عورت کے اپنے آپ کو ہبہ کرنے کے متعلق بیان ہے،آیت کے آخر میں بطور نص واضح کردیا گیا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی خاصہ ہے۔فرمایا: ((خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ)) (الأ حزاب:50) ’’یہ خاص تیرے لیے ہے،مومنوں کے لیے نہیں۔‘‘ 94۔ایسی دوبہنوں کو نکاح میں جمع کرنا جو ماں کی طرف سے ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ ماں کی طرف سے اخوت قائم ودائم ہے اور دوبہنوں کوشادی میں اکٹھا کرنے کی حرمت مطلق ہے،خواہ وہ دونوں بہنیں نسبی ہوں یا رضاعی،آزاد ہوں یا غلام،یا ایک آزاد اور دوسری غلام ہو،دوباپوں سے ہوں یا ایک باپ سے یا ایک ماں سے ،ہم بستری سے پہلے کی ہوں یا بعد کی، ارشاد الٰہی عام ہے: ((وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ)) (النساء:23) ’’اور یہ کہ تم دوبہنوں کو جمع کرو،مگر جو گزر چکا۔“ امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اہل علم نے بالاتفاق اسی کے مطابق فتویٰ دیا ہے۔(اللجنة الدائمة:1054) 95۔حاملہ عورت سے نکاح کا حکم۔ حاملہ عورت مطلقہ ہو یا اس کا خاوند فوت ہوگیا ہو اس کی عدت وضع حمل