سورة آل عمران - آیت 167

وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور منافقین کو بھی بھی دیکھ لے، اور ان (منافقوں) سے کاہ گیا تھا کہ آؤ اللہ کے راستے میں جنگ کرو یاد فاع کرو، تو انہوں نے کہا تھا کہ : اگر ہم دیکھتے کہ ( جنگ کی طرح) جنگ ہوگی تو ہم ضرور آپ کے پیچھے چلتے۔ (٥٧) اس دن ( جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے) وہ ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی (٥٨) اور جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ منافقین اس دن ایمان کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آدمی کے حالات بدلتے رہتے ہیں، کبھی کوئی شخص کفر کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے، اور کبھی کوئی شخص ایمان کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ واحدی نے لکھا ہے، یہ آیت دلیل ہے کہ جو آدمی اپنی زبان سے کلمہ توحید کا اقرار کرے گا، اس کا کفر جانتے ہوئے بھی اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔ اللہ نے ان منافقین کی یہ صفت بیان کی کہ وہ اپنی زبان سے تو ایمان کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ان کے دل کفر سے بھرے ہوئے ہیں۔