سورة آل عمران - آیت 159

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ان واقعات کے بعد اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر ( اے پیغمبر) تم نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگر تم سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ تمہارے آس پاس سے ہٹ کر تتر بتر ہوجاتے۔ لہذا ان کو معاف کردو، ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو، اور ان سے (اہم) معاملات میں مشورہ لیتے رہو۔ پھر جب تم رائے پختہ کر کے کسی بات کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ یقینا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

109۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی صفات عالیہ کا ذکر فرمایا ہے، اور ان پر اور مسلمانوں پر احسان جتایا ہے کہ نرمی کا یہ جذبہ جو آپ کے اندر مسلمانوں کے لیے موجزن ہے، اللہ کا عطیہ ہے، اسی نے آپ پر اور صحابہ کرام پر رحم کھاتے ہوئے یہ جذبہ نرم خوئی آپ کے اندر پیدا کردیا ہے کہ آپ ہر حال میں ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں، ورنہ میدان احد میں انہوں نے آپ کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ تو بڑا ہی غصہ دلانے والا تھا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر آپ بدخلق، سخت زبان، سخت دل ہوتے، اور اپنے صحابہ کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرتے تو ایک ایک کر کے سب آپ سے الگ ہوجاتے اور دعوت کا کام رک جاتا، لیکن اللہ نے آپ کو نرم خو، نرم زبان، خوش مزاج اور رحم دل بنایا ہے۔ امام بخاری اور دوسرے محدثین نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی تورات میں وہی صفات بیان ہوئی ہیں جو قرآن میں موجود ہیں، کہ آپ سخت زبان، سخت دل، اور بازاروں میں شور مچانے والے نہ ہوں گے اور برائی کا جواب برائی سے نہیں دیں گے، بلکہ عفو و درگذر سے کام لیں گے۔ اس لیے ان سے آپ کے حق میں جو کوتاہی ہوئی ہے اسے درگذر کردیجئے، جیسا کہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کیجیے اور جنگی اور غیر جنگی تمام معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہیے۔ چنانچہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اپنی زندگی میں صحابہ کرام سے بہت سے معاملات میں مشورہ کرتے رہے۔ غزوہ بدر کے موقع سے دشمن کی فوج کو جالینے کے بارے میں مشورہ کیا، غزوہ احد کے موقع سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر ہی دفاع کیا جائے، یا باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے، غزوہ خندق کے موقع سے مشورہ طلب کیا اور کہا کہ اے مسلمانو ! مجھے مشورہ دو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے ساتھ مشورہ کے بعد جو رائے طے پا جائے، اس کام کو کر گذرنے کے لیے اللہ پر بھروسہ کیجئے۔ لوگوں کے مشورہ پر نہیں۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ مقصود انہی امور میں مشورہ کرنا ہے، جن کے بارے میں شرع میں حکم صریح موجود نہ ہو، بعض علمائے امت کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ مسلمان حکام کو علماء سے ان امور میں ضرور مشورہ کرنا چاہئے، جن کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے۔ قرطبی نے ابن عطیہ کا قول نقل کیا ہے کہ علماء کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو حاکم، اہل علم اور اہل دین سے مشورہ نہیں کرتا اسے معزول کردینا واجب ہے۔ فخر الدین رازی لکھتے ہیں، یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ توکل کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ آدمی اپنے آپ کو مہمل اور بے کار سمجھے، جیسا کہ بعض جاہلوں کا خیال ہے، ورنہ مشورہ کرنا توکل کے خلاف ہوتا، توکل یہ ہے کہ آدمی ظاہری اسباب تو اختیار کرے، لیکن دل سے اس پر بھروسہ نہ کرے، بھروسہ ہو تو صرف اللہ پر۔