سورة آل عمران - آیت 140

إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکا ہے۔ (٤٦) یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور مقصد یہ تھا کہ اللہ ایمان والوں کو جانچ لے، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید قرار دے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

96۔ یہاں بھی مسلمانوں کو ایک دوسری طرح سے تسلی دی جا رہی ہے کہ میدانِ احد میں اگر تمہیں زخم لگے ہیں، اور تمہارے لوگ قتل ہوئے، تو تمہارے دشمنوں کے ساتھ بھی تو ایسا ہوا ہے، لیکن کافر ہوتے ہوئے، انہوں نے اپنی قوم کو بزدلی نہیں دکھائی، اور اپنی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا، تم تو مسلمان ہو، اللہ نے تم سے فتح و نصرت کا وعدہ کر رکھا ہے، اس لیے تمہیں بدرجہ اولی قوت و شجاعت کا مظاہرہ کرنا چاہئے، اور یہ تو دنیاوی اور عارضی زندگی ہے، یہاں تو ایسا ہی ہوتا رہتا ہے کہ کبھی اللہ کے دوستوں کو غلبہ حاصل ہوتا ہے، اور کبھی اس کے دشمنوں کو اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، اور وہاں کی کامیابی اصل کامیابی ہے، اور وہ مؤمنوں کے ساتھ خاص ہے، اور ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے تاکہ مؤمنوں اور منافقوں میں تمیز ہوسکے، اور کچھ لوگوں کو شہادت کا مقام مل سکے، اور تاکہ اللہ مؤمنوں کو ان کے گناہوں سے اور ان کے نفس کے آفات سے پاک کردے (جیسا کہ اس واقعہ نے مسلمانوں کو منافقوں سے ممتاز کردیا) اور تاکہ کافروں کو ہلاک کردے، وہ اس طرح کہ جب وہ غالب آئیں گے تو کبر و غرور میں طاغوتی طاقت بن کر ابھریں گے، مسلمانوں سے ٹکرائیں گے، اور پھر پاش پاش ہوجائیں گے، چنانچہ ان تمام کافروں کا انجام جنہوں نے جنگ احد میں حصہ لیا بعد میں ایسا ہی ہوا، سبھی مارے گئے یا ذلیل و خوار ہو کر در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔