سورة البقرة - آیت 73

فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

چنانچہ ایسا ہوا کہ ہم نے حکم دیا اس (شخص) پر (جو فی الحقیقت قاتل تھا) مقتول کے بعض (اجزائے جسم) سے ضرب لگاؤ (جب ایسا کیا گیا تو حقیقت کھل گئی اور قاتل کی شخصیت معلوم ہوگئی) اللہ اسی طرح مردوں کو زندگی بخشتا اور تمہیں اپنی (قدرت و حکمت کی) نشنایاں دکھلاتا ہے تاکہ سمجھ بوجھ سے کام لو

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٦] لاش کا زندہ ہو کر قاتل کا پتہ بتانا :۔ قاتلوں کا جرم صرف یہی نہیں تھا کہ انہوں نے مال و دولت کے لالچ میں آ کر اپنے چچا کو قتل کر ڈالا تھا۔ بلکہ ان کا دوسرا جرم یہ تھا کہ لاش کو کسی دوسرے شخص کے دروازے پر پھینک دیا تھا تاکہ ان پر شبہ نہ ہو سکے اور تیسرے یہ کہ خود شبہ سے بچنے کی خاطر اس قتل کا الزام دوسروں پر تھوپ رہے تھے۔ گائے ذبح ہونے کے بعد اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا لے کر اس مقتول کی میت پر مارا گیا تو اس کے زخم سے خون بہنے لگا۔ جسم میں زندگی کے آثار پیدا ہوگئے اور اس لاش نے بول کر قاتل یا قاتلوں کا نام اور پتا بتا دیا۔ اس کے بعد پھر سے اس پر موت طاری ہوگئی۔ اس طرح جن جرائم کو یہ قوم چھپائے رکھنا چاہتی تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں ظاہر کردیا۔ چنانچہ قصاص میں یہ دونوں بھتیجے مارے گئے اور انہیں اپنے چچا کے ورثہ میں سے بھی کچھ نہ ملا۔ [٨٧] اس واقعہ سے کئی امور کا انکشاف ہوگیا مثلاً : ١۔ یہ گائے بالکل اسی قسم کی تھی جسے معبود سمجھ کر اس کی پوجا کی جاتی تھی یہ گائے ذبح ہوتے وقت اپنے آپ کو بھی نہ بچا سکی تو دوسروں کا کیا بگاڑ یا سنوار سکتی تھی۔ پھر ذبح کرنے والوں کو نہ ذبح سے پہلے کچھ نقصان پہنچا اور نہ ذبح کے بعد۔ ٢۔ جس بات کو یہ لوگ چھپائے رکھنا چاہتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ سے اسے ظاہر کردیا۔ ٣۔ انہیں یہ یقین ہوگیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اتنے دنوں کے بعد اس لاش کو زندہ کرسکتا ہے تو ہمیں بھی دوبارہ زندہ کر کے ہمارا محاسبہ کرسکتا ہے۔