سورة المآئدہ - آیت 94

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے ایمان والو ! اللہ تمہیں شکار کے کچھ جانوروں کے ذریعے ضرور آزمائے گا جو تمہارے ہاتھوں اور تمہارے نیزوں کی زد میں آجائیں گے، (٦٥) تاکہ وہ یہ جان لے کہ کون ہے جو اسے دیکھے بغیر بھی اس سے ڈرتا ہے۔ پھر جو شخص اس کے بعد بھی حد سے تجاوز کرے گا وہ دردناک سزا کا مستحق ہوگا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٤١] یعنی محرم شکار کے لیے نہ کسی دوسرے کو کہہ سکتا ہے نہ شکار کی طرف یا شکار کرنے کے لیے کسی کو اشارہ کرسکتا ہے اور نہ ہی شکار میں کسی طرح کی مدد کرسکتا ہے۔ البتہ اگر کسی غیر محرم نے شکار کیا ہو تو اس میں سے کھا سکتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ محرم پر شکار کی پابندی :۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جب حدیبیہ کے سفر پر روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ نے احرام باندھا صرف میں نے نہیں باندھا تھا۔ میرے ساتھیوں نے راستہ میں ایک جنگلی گدھا دیکھا اور وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ میں اپنی جوتی سینے میں مشغول تھا لیکن انہوں نے مجھے نہ بتایا اگرچہ وہ چاہتے تھے کہ میں اسے دیکھ لوں۔ اچانک میں نے نظر اٹھائی تو گدھے کو دیکھا۔ میں گھوڑے پر زین کس کر اس پر سوار ہوگیا اور (جلدی سے) کوڑا اور نیزہ لینا بھول گیا۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے کوڑا اور نیزہ اٹھا کر دے دو۔ انہوں نے کہا ’’اللہ کی قسم! ہم اس کام میں تمہاری کچھ مدد نہ کریں گے۔‘‘ مجھے غصہ آ گیا۔ خیر میں نے اتر کر کوڑا اور نیزہ پکڑا اور پھر سوار ہوگیا۔ پھر میں اس گدھے پر حملہ آور ہوا اور نیزہ چبھو کر اسے روک دیا۔ میں نے پھر ان سے مدد طلب کی۔ انہوں نے پھر میری مدد کرنے سے انکار کردیا۔ الغرض ہم سب نے اس میں سے کھایا۔ پھر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملا۔ میں نے کہا کہ ہم نے ایک جنگلی گدھے کا شکار کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا ’’کیا تم میں سے کسی نے شکار کیا تھا یا حملہ کرنے کو کہا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا یا کسی قسم کی مدد کی تھی؟‘‘ صحابہ نے کہا ''نہیں'' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے جو کہ احرام باندھے ہوئے تھے کہا ’’تم بھی اسے کھا سکتے ہو۔‘‘ پھر پوچھا ’’کیا تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی ہے؟‘‘ میں نے دستی پیش کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاٹ کر کھایا۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب تحریم الصید للمحرم) بخاری۔ ابو اب العمرۃ۔ باب اذا رای المحرمون صیداً فضحکوا۔۔ الخ) واضح رہے کہ جس طرح احرام باندھے ہوئے کو شکار کرنا حرام ہے اسی طرح حرم مکہ میں داخل ہونے والے پر بھی حرام ہے کیونکہ انتم حرم کا لفظ ان دونوں صورتوں کو شامل ہے۔ اور یہ آزمائش اس لحاظ سے تھی کہ حدیبیہ کے سفر میں راستہ میں شکار کی بڑی افراط تھی اور مسلمانوں کی خوراک کے لیے اس کی ضرورت بھی تھی حتیٰ کہ بعض جانور اور پرندے صحابہ کے خیموں اور ڈیروں میں گھس آتے تھے۔ تاہم مسلمان اس آزمائش میں پورے اترے جبکہ بنی اسرائیل کے سمندر کے کنارے بسنے والے ماہی گیر ایسے ہی امتحان میں بری طرح ناکام ہوئے اور مکر و فریب سے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی جس کی پاداش میں وہ بندر بنا دیئے گئے تھے۔