سورة المآئدہ - آیت 52

فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

چنانچہ جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے، تم انہیں دیکھتے ہو کہ وہ لپک لپک کر ان میں گھستے ہیں، کہتے ہیں : ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر کوئی مصیبت کا چکر آپڑے گا (٤٤) لیکن) کچھ بعید نہیں کہ اللہ (مسلمانوں کو) فتح عطا فرمائے یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کردے (٤٥) اور اس وقت یہ لوگ اس بات پر پچھتائیں جو انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی تھی۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٤] منافقوں کی یہود ونصاریٰ سے خفیہ سازباز کی وجہ :۔ یہود و نصاریٰ سے دلی دوستی رکھنے والے منافقین تھے جو بظاہر مسلمان تھے مگر ان کی دلی ہمدردیاں یہود و نصاریٰ اور کفار ہی کے ساتھ تھیں اور جنگ احد کے بعد ان کی ہمدردیوں میں کچھ اضافہ بھی ہوگیا تھا جنگ بدر کے بعد اگرچہ اسلام ایک قوت بن چکا تھا تاہم اسلام کو حقیقتاً غلبہ فتح مکہ کے بعد ہی حاصل ہوا۔ اس درمیانی عرصہ میں اسلام یا کفر میں سے کسی کے متعلق بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ان میں سے کون سی قوت غالب ہوگی اور کونسی مغلوب؟ اب ظاہری صورت حال یہ تھی کہ یہود و نصاریٰ دونوں مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ مالدار تھے عرب کے سرسبز و شاداب خطے بھی انہیں کے قبضہ میں تھے یہودی سودی کاروبار بھی کرتے تھے اس لحاظ سے بھی لوگ ان کے محتاج تھے۔ غرض عرب کی معیشت پر دراصل یہی یہود و نصاریٰ ہی چھائے ہوئے تھے ان حالات میں منافق یہ سوچتے تھے کہ اگر مسلمان ہار گئے تو ہم تو کہیں کے نہ رہے لہٰذا وہ ان سے دوستی کرنا، دوستانہ مراسم رکھنا، خفیہ طور پر اسلام دشمن سازشوں میں ان کا ساتھ دینا، جنگ کے دوران ان سے مسلمانوں کے خلاف خفیہ معاہدے کرنا یہ سب ان کے خیال کے مطابق ان کی انتہائی اہم ضرورتیں تھیں۔ پھر دوسری طرف یہ بھی خطرہ تھا کہ کہیں اسلام ہی غالب نہ آجائے۔ لہٰذا بظاہر مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہتے اور نماز ادا کرتے تھے۔ انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ منافقین بھی حقیقتاً مسلمان نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ ہی ہیں۔ [٩٤۔ الف] فتح مکہ پر قبائل عرب کی نظریں :۔ قرآن کریم نے اکثر مقامات پر الفتح سے مراد فتح مکہ لی ہے یعنی مشرکین عرب، یہود مدینہ، منافقین اور نصاریٰ وغیرہ سب سمجھتے تھے کہ عرب میں مسلمانوں اور قریش مکہ میں سے بالاتر قوت وہی سمجھی جا سکتی ہے جس کا مکہ اور بیت اللہ پر قبضہ ہو۔ قریش مکہ کی ثروت اور سیاسی قیادت کا سبب یہی کعبہ کی تولیت تھی اللہ تعالیٰ اس آیت میں منافقوں سے یہ خطاب فرما رہے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب مسلمانوں کو فتح مکہ سے ہمکنار کر دے اور اس فتح مکہ سے پہلے بھی ایسے حالات پیش آ سکتے ہیں جس میں منافقوں کے سب پول کھل جائیں اور وہ پوری طرح ننگے ہوجائیں اور نادم و شرمسار ہو کر رہ جائیں اور جو بات وہ دلوں میں چھپاتے تھے صرف یہ نہ تھی کہ پتہ نہیں کہ کس فریق کو غلبہ حاصل ہوتا ہے بلکہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے پورے اہل عرب کی مخالفت کے علی الرغم مکہ پر فتح حاصل کرلینا ناممکنات سے ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کافروں سے خفیہ ساز باز رکھتے اور اسے کسی قیمت پر چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔