سورة المآئدہ - آیت 8

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے ایمان والو ! ایسے بن جاؤ کہ اللہ ( کے احکام کی پابندی) کے لیے ہر وقت تیار ہو (اور) انصاف کی گواہی دینے والے ہو، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصافی کرو۔ انصاف سے کام لو، یہی طریقہ تقوی سے قریب تر ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ یقینا تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣١] دشمن قوم پر بھی گواہی میں انصاف :۔ پہلے سورۃ نساء کی آیت نمبر ١٣٥ میں اس سے ملتا جلتا مضمون گزر چکا ہے کہ تم اللہ کی خاطر انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دیا کرو خواہ یہ گواہی تمہارے اپنے خلاف جا رہی ہو یا تمہارے والدین اور اقرباء کے خلاف جا رہی ہو۔ یہاں اس آیت میں یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ تم سابقہ دشمنیوں اور قبائلی عصبیتوں سے بالکل بے نیاز ہو کر انصاف کی گواہی دیا کرو۔ کسی شخص کی یا کسی قوم کی دشمنی تمہاری گواہی پر یا تمہارے عدل و انصاف پر ہرگز اثر انداز نہ ہونی چاہیے اس کی واضح مثال تو اس انصاری کا واقعہ ہے جس نے کسی مسلمان کی ایک زرہ چرا لی اور ایک یہودی کے پاس امانت رکھ آیا تھا (یہ واقعہ سورۃ نساء کی آیت نمبر ١٠٧ کے تحت بیان ہوچکا ہے) مالک یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدالت میں لے گیا چور (جو حقیقتاً منافق تھا) کی سوچ ہی یہی تھی کہ میں چونکہ مسلمان ہوں اس لیے یہودی کے مقابلہ میں یقیناً آپ میری حمایت کریں گے۔ پھر اس چور اور اس کے خاندان والوں نے اسی قبائلی عصبیت کی بنا پر اس کا ساتھ دیا اور قسمیں بھی کھائیں کہ ہم اس چوری کے قصہ میں بالکل بے تعلق ہیں اور قریب تھا کہ آپ یہودی کے خلاف اور اس منافق کے حق میں فیصلہ بھی دیتے کہ اللہ نے بذریعہ وحی آپ کو حقیقی صورت سے مطلع فرما دیا۔ اس آیت میں تمام مسلمانوں کو ایک جامع ہدایت دی گئی ہے کہ جس شخص کے حق میں تمہیں گواہی دینا پڑے، گواہی بالکل ٹھیک ٹھیک دیا کرو خواہ وہ تمہارا دوست ہو یا دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ کیونکہ تم میں عدل و انصاف اور تقویٰ پیدا کرنے والے اسباب میں سے یہ ایک موثر ترین سبب ہے اور تمہیں شہادت دیتے وقت ہر لمحہ یہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ جو کچھ تم کہو گے اللہ سن رہا ہے اور جو کچھ کرو گے اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ اور بعض مفسرین نے ﴿کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَاۗءَ ﴾ کا یہ مطلب لیا ہے کہ اللہ کے دین کو قائم کرنے والے بن جاؤ۔ یعنی تم پر یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ تم تمام اقوام عالم کو اپنے قول سے بھی اور فعل سے توحید اور احکام اخلاق کی تعلیم دینے کے ذمہ دار بن جاؤ۔ جیسا کہ صحابہ کرام نے اس پر عمل کر کے دکھایا اسی ذمہ داری کو تمہیں بحال رکھنا چاہیے اور آگے بڑھانا چاہیے اور اس سلسلہ میں تمہیں عدل و انصاف کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔