سورة یونس - آیت 46

وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) ہم نے ان لوگوں سے ( یعنی منکرین عرب سے) جن جن باتوں کا وعدہ کیا ہے (یعنی دعوت حق کے پیش آنے والے نتائج کی خبر دی ہے) ان میں سے بعض باتیں تجھے (تیری زندگی میں) دکھا دیں یا (ان کے ظہور سے پہلے) تیرا وقت پورا کردیں لیکن بہرحال انہیں ہماری ہی طرف لوٹنا ہے اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس پر شاہد ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٢] کافروں پر عذاب کی پیشگوئی کیسے پوری ہوئی؟:۔ کافروں اور مشرکوں کے لیے سب سے بڑا دکھ اور عذاب اسلام کا غلبہ اور ان کی ذلت آمیز شکست ہی ہوسکتا تھا تو اس عذاب کا بہت بڑا حصہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی آپ نے خود اور سب مسلمانوں اور کافروں نے دیکھ لیا اسلام بدستور آگے بڑھتا رہا اور ترقی کی منازل بڑی تیزی سے طے کرتا گیا اور غزوہ بدر سے لے کر غزوہ تبوک تک کافروں کو میدان جنگ میں بھی اور معاشرتی طور پر بھی شکست اور ذلت ہی نصیب ہوتی رہی۔ رہی سہی کسر اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات کے بعد نکال دی اور دور عثمانی تک ایک وقت ایسا آیا جب کہ قریب قریب ساری دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجتا تھا اور کفر پوری طرح مغلوب و مقہور ہوچکا تھا۔ [٦٣] پھر کافروں سے عذاب کا وعدہ صرف دنیا کی زندگی پر ہی موقوف نہ تھا بلکہ آخرت میں عذاب کا وعدہ مستقل طور پر موجود تھا یہ نہیں ہوسکتا کہ اگر دنیا میں وہ عذاب سے دوچار ہوچکے تو آخرت میں چھوٹ جائیں گویا دنیا کی زندگی میں اگر کوئی کافر عذاب سے بچ بھی جائے تو اخروی عذاب تو بہرحال یقینی اور بڑا سخت ہے۔