سورة التوبہ - آیت 67

الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم جنس، برائی کا حکم دیتے ہیں اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور (راہ حق میں خرچ کرنے سے) اپنی مٹھیاں بند رکھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا، نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بھی اللہ کے حضور بھلا دیئے گئے (یعنی جو اس کی طرف سے غافل ہوجاتا ہے اس کے قوانین فضل و سعادت بھی اسے بھلا کر چھوڑ دیتے ہیں) بلا شبہ یہ منافق ہی ہیں جو (دائرہ حق سے) باہر ہوگئے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٠] منافق امر تو منکرات کا کرتے ہیں اور نہی اوامر کی :۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کتاب و سنت میں اتنی زیادہ تاکید آئی ہے جس سے بعض علماء نے اس فریضہ کو فرض کفایہ کے بجائے فرض عین سمجھ لیا ہے اور یہ منافق لوگ خواہ مرد ہوں یا عورتیں سب اس اہم فریضہ کے برعکس کام کرتے ہیں۔ کوئی برائی کی بات ہو، کفر و شرک کا معاملہ ہو یا اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا، ان کے دل فوراً ادھر مائل ہوجاتے ہیں اور اس میں ہر طرح سے امداد و تعاون پر تیار ہوجاتے ہیں اور ایسے کاموں میں ان کے دلوں کو اطمینان اور راحت ملتی ہے اور جب کوئی اچھا کام ہو رہا ہو یا دین کی سربلندی کا معاملہ درپیش ہو تو ایسی خبر سنتے ہی ان کے دل بجھ جاتے ہیں۔ پھر وہ ایسی تدبیروں میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ یا تو وہ کام شروع ہی نہ ہو اور اگر ہوچکا ہے تو تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ [٨١] یعنی وہ رسم ورواج، دکھلاوے اور حرام کاموں میں تو اپنے دل کی خوشی سے اور فراخدلی سے خرچ کرتے ہیں۔ لیکن جب جہاد کے لیے یا کسی بھی بھلے کام کے لیے چندہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو ان کے دلوں میں گھٹن پیدا ہوجاتی ہے اور کوئی چیز ہاتھوں سے نکالنے کو جی نہیں چاہتا۔ [٨٢] بھلانے کی نسبت اللہ کی طرف :۔ اللہ کا بھلانا یہ ہے کہ اس نے ان منافقوں کو اپنے فضل اور رحمت سے محروم کردیا اور اس کے بجائے سب مسلمانوں کی نظروں میں اللہ نے ذلیل و رسوا بنا دیا۔ نیز عرب میں محاورہ یہ ہے کہ کسی چیز کے بدلے پر بھی اس کا نام بول دیتے ہیں۔ اور اسے مشا کلہ کہتے ہیں جیسے ﴿يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُم﴾ (وہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں اور اللہ انہیں ان کے دھوکے کا بدلہ دیتا ہے) اب اللہ نے اپنے بھلانے کی جو جو سزا بھی مقرر کر رکھی ہے۔ ان سب سزاؤں پر اس لفظ کا اطلاق ہوگا۔ جیسا کہ ان سزاؤں کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اس سے اگلی آیت میں کردی ہے یعنی اللہ کے بھلانے سے مراد ان پر اللہ کی پھٹکار اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔