سورة البقرة - آیت 108

أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۗ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر کیا تم چاہتے ہو اپنے رسول سے بھی (دین کے بارے میں) ویسے ہی سوالات کرو جیسے اب سے پہلے موسیٰ سے سے کیے جا چکے ہیں؟ (یعنی جس طرح بنی اسرائیل نے راست بازی کی جگہ کٹ حجتیاں کرنے اور بلا ضرورت باریکیاں نکالنے کی چال اختیار کی تھی ویسی ہی تم بھی اختیار کرو؟ سو یاد رکھو) جو کوئی بھی ایمان کی نعمت پا کر پھر اسے کفر سے بدل دے گا تو یقینا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا اور فلاح و کامیابی کی منزل اس پر گم ہوگئی

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢٦] اسلام سے متنفر کرنے کا دوسرا طریقہ جو یہود نے اختیار کیا وہ یہ تھا کہ موشگافیاں کر کے طرح طرح کے سوالات مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے اور انہیں کہتے کہ اپنے نبی سے یہ بات بھی پوچھ کر بتاؤ اور وہ بھی اور یہ بھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا کہ یہود کی تو عادت ہی یہ رہی ہے انہوں نے تو موسیٰ علیہ السلام کو مسلسل سوالات اور مطالبے کر کر کے تنگ کردیا تھا۔ اس طرح کی موشگافیاں کافرانہ روش ہے اور یہ کام ایسے لوگ کرتے ہیں جو اطاعت و فرمانبرداری پر آمادہ نہیں ہوتے۔ لہٰذا تم ایسے لایعنی اور بے مقصد سوالات کرنے سے پرہیز کرو۔ یہود کا سوالات کرکرکے تنگ کرنا:۔ اور سورۃ مائدہ میں فرمایا۔ ’’مسلمانو! اپنے رسول سے ایسے سوالات مت پوچھا کرو کہ اگر ان کا جواب دیا جائے تو تمہیں برا لگے۔‘‘ (٥ : ١٠١) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بارہا متنبہ فرمایا کہ قیل و قال اور بال کی کھال اتارنے کی وجہ سے پچھلی امتیں تباہ ہوئیں۔ لہٰذا تم ایسی باتوں سے پرہیز کرو اور جن باتوں کو اللہ اور اس کے رسول نے نہیں چھیڑا ان میں خواہ مخواہ کرید نہ کرو۔