سورة البقرة - آیت 97

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر ! یہ اللہ کا کلام ہے جو جبرایل نے اس کے حکم سے تمہارے دل میں اتارا ہے اور یہ اس کلام کی تصدیق کرتا ہوا آیا ہے، جو اس سے پہلے نازل ہوچکا ہے۔ اس میں انسان کے لیے ہدایت ہے اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں (فلاح و کامیابی کی) بشارت

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١٤] یہود کی جبریل دشمنی کی وجہ :۔ یہود یہ سمجھتے تھے کہ جبرئیل ہمارا دشمن ہے۔ وہ کہتے تھے کہ یہی وہ فرشتہ ہے جو کئی بار ہم پر عذاب اور ہمارے دشمنوں کو ہم پر غالب کرتا رہا ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے جب مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کی خبر سنی تو اس وقت وہ باغ میں میوہ چن رہے تھے۔ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا’’میں آپ سے تین باتیں پوچھتا ہوں جنہیں پیغمبر کے سوا کوئی نہیں بتا سکتا آپ بتائیے کہ : قیامت کی پہلی نشانی کیا ہے؟ اور بہشتی لوگ بہشت میں جا کر سب سے پہلے کیا کھائیں گے؟ اور بچہ اپنے ماں باپ سے صورت میں کیوں ملتا جلتا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ابھی ابھی جبریل نے مجھے یہ باتیں بتائی ہیں‘‘ عبداللہ بن سلام نے کہا : ’’جبرائیل نے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں، ابن سلام نے کہا : سارے فرشتوں میں سے وہی تو یہودیوں کا دشمن ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ ﴾(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ البقرۃ) [١١٥] یعنی جب جبریل ہی نے یہ قرآن اتارا ہے جو تمہاری کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہے تو پھر جبریل سے دشمنی رکھنے کے کیا معنی؟