سورة الاعراف - آیت 60

قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس پر اس کی قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے جواب دیا : ہمیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تم صریح گمراہی میں پڑگئے ہو۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٤] سرداروں کی مخالفت کی وجوہ :۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی مخالفت میں عموماً سرداران قوم ہی پیش پیش ہوا کرتے ہیں اس کی بڑی وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ نبی کی دعوت قبول کرلیں تو انہیں ان مناصب یا اس مقام سے دستبردار ہونا پڑتا ہے جو معاشرے میں انہیں حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جب نبی یہ دعوت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی کار ساز حاجت روا اور مشکل کشا نہیں تو اس سے از خود ان کے بتوں کی توہین ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ ان کی اپنی عقلوں اور آباؤ اجداد کی عقلوں کی بھی توہین ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ سردار قسم کے لوگ انبیاء علیہم السلام کی دعوت پر فوراً بھڑک اٹھتے ہیں اور یہی وہ طبقہ ہوتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَکِدًا﴾ اس طرح ان کا خبث باطن کھل کر سامنے آ جاتا ہے پھر صرف یہی نہیں کہ یہ لوگ خود دعوت قبول نہیں کرتے بلکہ عام طبقہ کو بھی اس راہ سے روکتے اور قبول دعوت پر طرح طرح کی پابندیاں لگا دیتے ہیں اور ایسے لوگوں نے جو سیدنا نوح علیہ السلام کو جواب دیا تو ان کا استدلال یہ تھا کہ اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دینے اور کوئی اور دین اختیار کرنے سے بڑی گمراہی اور کیا ہو سکتی ہے؟ لہٰذا صریح گمراہی میں ہم نہیں بلکہ تم ہو۔