سورة النسآء - آیت 66

وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر ہم ان کے لیے یہ فرض قرار دے دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے سے لوگوں کے سوا کوئی اس پر عمل نہ کرتا۔ اور جس بات کی انہیں نصیھت کی جارہی ہے اگر یہ لوگ اس پر عمل کرلیتے تو ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، اور ان میں خوب ثابت قدمی پیدا کردیتا۔ (٤٤)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

44: مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو تو بڑے سخت قسم کے احکام دئے گئے تھے جن میں توبہ کے طور پر ایک دوسرے کو قتل کرنا بھی شامل تھا، جس کا ذکرسورۂ بقرہ (٥٤) میں آیا ہے، اب اگر کوئی ایسا سخت حکم دیا جاتا تو ان میں سے کوئی بھی عمل نہ کرتا، اب اس سے بہت آسان حکم یہ دیا جارہا ہے کہ آنحضرتﷺ کے احکام کو دل وجان سے تسلیم کرلو، لہذا عافیت کا راستہ یہی ہے کہ وہ آپﷺ کے صحیح معنی میں فرماں برادار بن جائیں۔ بعض روایات میں ہے کہ کچھ یہودیوں نے شیخی بھی بگھاری تھی کہ ہم توایسی فرماں برادار قوم ہیں کہ جب ہمارے اٰبا واجداد کو یہ حکم ہوا کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کریں تو انہوں نے اس جیسے سخت حکم پر عمل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا، : ٦٦ ان کی اس بات کی طرف بھی اشارہ کررہی ہے۔