سورة التوبہ - آیت 20

الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّهِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو یقینا اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٢٠) میں واضح کردیا کہ اللہ کے نزدیک بزرگی و فضیلت کا معیار کیا ہے؟ فرمایا سب سے بڑا درجہ انہی کا ہے جنہوں نے سچائی کی راہ میں ہر طرح کی قربانیاں کیں اور ایمان و عمل کی آزمائش میں پورے اترے، تمہارے گھڑے ہوئے تقدس و بزرگی کے مناصب اور رواجی بڑائیاں اللہ کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ آج کل مسلمانوں کی عام مذہبی ذہنیت کس درجہ اسلام سے دور ہوگئی ہے۔ جاہلیت عرب کی طرح وہ بھی رواجی نیکیوں کو حقیقی اسلامی نیکیوں پر ترجیح دینے لگے ہیں۔ اگر ایک فاسق و فاجر امیر محرم میں سبیل لگا دیتا ہے یا ربیع الاول میں دھوم دھام سے مولود کی مجلس کردیتا ہے یا کسی مسجد اور درگاہ میں بجلی کی روشنی کرا دیتا ہے تو تمام مسلمان اس کی حمد و ثنا کا غلغلہ مچا دیتے ہیں اور کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے ایمان و عمل اور ایثار فی اللہ واللہ کا کیا حال ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ رواجی نیکیاں اللہ کے نزدیک نیکیاں نہیں ہیں۔ نیکی کا معیار صرف ایمان و عمل اور ایمان و عمل کی راہ میں ایثار ہے۔ اوپر گزر چکا ہے کہ یہ سورت ٩ ھ میں نازل ہوئی تھی اور ابتدائی آیتیں سال کے آخری مہینوں یعنی حج کے مہینوں میں اعلام عام کی غرض سے مشتہر کی گئیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ مکہ فتح ہوچکا تھا، جنگ حنین نے دشمنوں کی رہی سہی قوت بھی ختم کردی تھی، غزوہ تبوک میں تیس ہزار مسلمانوں نے شرک کی تھی اور جزیرہ عرب میں مسلمانوں کے سوا اور کوئی قوت نظر نہیں آتی تھی۔ تاہم صورت حال کے بعض پہلو ایسے تھے جو کمزوری سے خالی نہ تھے : (١) مکہ کے طلقا کا ایک بڑا گروہ نیا نیا مسلمانوں میں داخل ہوا تھا۔ یعنی ان باشندگان مکہ کا جنہیں پیغمبر اسلام نے عفو و بخشش کی ایک بے نظیر مثال قائم کرتے ہوئے فتح مکہ کے دن آزاد کردیا تھا اور فرمایا تھا : انتم الطلقاء۔ آج تم سے کوئی باز پرس نہیں، یہ بھی اسلامی زندگی کی پختگی کے محتاج تھے اور ان سے بہتوں کے عزیز و اقربا دشمنوں میں ملے ہوئے تھے۔ جب اعلان جنگ ہوا تو انہیں اپنے قرابت داروں کی فکر ہوئی بعضوں نے جاہلیت کی نسبی اور خاندانی عصبیت کی صدا بھی بلند کی جو ابھی پوری طرح ان کے دلوں سے محو نہیں ہوئی تھی۔ (ب) منافق اور کچے دل کے آدمی بھی ابھی باقی تھے، وہ کہنے لگے اب جنگ کے اعلان کی ضرورت کیا ہے؟ جو کچھ ہونا تھا ہوچکا۔ (ج) عام مسلمانوں میں بھی فتح و عروج کی وجہ سے کچھ نہ کچھ بے پروائی سی پیدا ہوگئی تھی۔ لوگ خیال کرتے ہوں گے اب تو تمام عرب کلمہ حق کے آگے جھک رہا ہے اور دشمنوں میں کچھ دم خم باقی نہیں رہا۔ حالانکہ مشیت الہی نے عروج اسلام کا جو نقشہ کھنیچا تھا وہ کچھ اور ہی تھا اور اس موقع پر طبیعتوں کی بے پروائی نہ صرف مستقبل کے لیے بلکہ موجودہ حالت کے لیے بھی خطرہ سے خالی نہ تھے۔ پس ضروری تھا کہ مسلمانوں کو ایمان و عمل کے عزائم کی از سر نو تلقین کی جائے اور یاد دلایا جائے کہ آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ شروع ہوئی ہے۔ ازاں جملہ اس اعلان جنگ کی آزمائش ہے جسے دشمنوں کے غدر و فریب نے ناگزیر کردیا ہے اور ملک کے امن و امان کا استحکام اس کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ پہلے آیت (١٦) میں فرمایا تھا ایسا نہ سمجھو کہ تم اتنے ہی میں چھوڑ دیے جاؤ گے جتنا کچھ ہوچکا ہے بلکہ ابھی ایمان و عمل کی آزمائشیں باقی ہیں۔ اب یہاں سچے مومنوں کی فضیلت بیان کرنے کے بعد آیت (٢٣) میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دلائی کہ ایمان کا دعوی اور مومنوں کے دشمنوں سے موالات ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ اگر باپ اور بھائی بھی دشمنوں میں سے ہوں جب بھی تمہیں ان سے کوئی علاقہ نہیں رکھنا چاہیے۔