سورة البقرة - آیت 111

وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یہودی کہتے ہیں جنت میں کوئی آدمی داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو۔ اسی طرح عیسائی کہتے ہیں جنت میں کوئی داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ عیسائی نہ ہو۔ (یعنی ان میں سے ہر گروہ سمجھتا ہے آخرت کی نجات صرف اسی کے حصے میں آئی ہے اور جب تک ایک انسان اس کی مذہبی گروہ بندی میں داخل نہ ہو نجات نہیں پاسکتا۔ (اے پیغمبر) یہ ان لوگوں کی جاہلانہ امنگیں اور آرزوئیں ہیں۔ نہ کہ حقیقت حال۔ تم ان سے کہ اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو تو ثابت کرو تمہارے دعوے کی دلیل کیا ہے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اہل مذاہب کی عالمگیر گمراہی یہ ہے کہ انہوں نے دین کی سچائی جو ایک ہی تھی اور یکساں طور پر سب کو دی گئی تھی مذہبی گروہ بندیوں کے الگ الگ حلقے بنا کر ضائع کردی۔ اب ہر گروہ دوسرے گروہ کو جھٹلاتا ہے اور صرف اپنے ہی کو سچائی کا وارث سمجھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نزاع کا فیصلہ کیونکر ہو؟ اگر کوئی ایک گروہ ہی سچا ہے تو کیوں وہی سچا ہو دوسرے سچے نہ ہوں؟ اگر سب سچے ہیں تو پھر کوئی بھی سچا نہیں کیونکہ ہر گروہ دوسرے کو جھٹلا رہا ہے۔ اگر سب جھوتے ہیں تو پھر خدا کی سچائی گئی کہاں؟ قرآن کہتا ہے خدا کی سچائی سب کے لیے ہے اور سب کو ملی تھی لیکن سب نے سچائی سے انحراف کیا۔ سب اصل کے اعتبار سے سچے اور سب عمل کے اعتبار سے جھوٹے ہیں۔ میں چاہتا ہوں اسی مشترک اور عالمگیر سچائی پر سب کو جمع کردوں اور مذہبی نزاع کا خاتمہ ہوجائے۔ یہ مشترک اور عالمگیر سچائی کیا ہے؟ خدا پرستی اور نیک عملی کا قانون ہے۔ یہی قانون خدا کا ٹھہرایا ہوا دین ہے اور اسی کو میں "الاسلام" کے نام سے پکارتا ہوں۔ یہودی کہتے تھے، جب تک ایک انسان یہودی گروہ بندی میں داخل نہ ہو نجات نہیں پاسکتا۔ عیسائی کہتے تھے، جب تک عیسائی گروہ بندی میں داخل نہ ہو نجات نہیں مل سکتی۔ قرآن کہتا ہے نجات کا دارومدار خدا پرستی اور نیک عملی پر ہے، نہ کسی خاص گروہ بندی پر۔ جو انسان بھی خدا پرست اور نیک عمل ہوگا نجات پائے گا۔ خواہ تمہاری گھڑی ہوئی گروہ بندیوں میں داخل ہو یا نہ ہو۔