سورة الانفال - آیت 10

وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ ۚ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اللہ نے یہ بات جو کی تو اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ (تمہارے لیے) خوشخبری ہو اور تمہارے (مضطرب دل) قرار پاجائیں، ورنہ مدد تو (ہر حال میں) اللہ کی طرف سے ہے۔ بلا شبہ وہ (سب پر) غالب آنے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (١٠) سے واضح ہوگیا کہ فرشتوں والی بات صرف اس لیے تھی کہ کمزور مسلمانوں کے دل قرار پاجائیں۔ یہ بات نہ تھی کہ لڑائی لڑنے میں اسے کچھ دخل ہو۔ چنانچہ محققین تفسیر و حدیث اسی طرح گئے ہیں کہ فرشتوں کا نزول مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط رکھنے کے لیے ہوا تھا۔ لڑائی میں ان کی شرکت ثابت نہیں، نہ اس کی کوئی ضرورت پیش آئی تھی، اور آیت (١٢) میں فاضربوا کا خطاب مسلمانوں سے ہے نہ کہ فرشتوں سے۔ مسلمانوں کے دلوں کو تھامے رکھنے کے لیے جو فرشتوں کا نزول ہوا اس کی حقیقت کیا تھی؟ تو یہ معاملہ بھی عالم غیب کے حقائق سے تعلق رکھتا ہے، ہم اپنے ذہن و ادراک سے اس کی حقیقت معلوم نہیں کرسکتے۔ بدر کی لڑائی میں مسلمانوں کی حالت بڑی ہی بے بسی اور کمزوری کی تھی، کل تین سو تیرہ آدمی لڑنے کے قابل تھے اور ان کا بھی یہ حال تھا کہ ایک آدمی کے سوا کسی کے پاس گھوڑا نہ تھا، پس قدرتی طور پر لوگ ہراساں ہوئے، اور جو دل کے کچے تھے انہیں طرح طرح کے وسوسے ستانے لگے، پھر بڑی مصیبت یہ ہوئی کہ پانی کی جگہ ایک ہی تھی۔ اس پر دشمن قابض ہوگیا، علاوہ بریں زمین ریتلی تھی، پاؤں دھنس دھنس جاتے تھے، دشمن سوار تھے، ان کا کچھ نہ بگڑتا۔ مسلمان پیدل تھے ان کے پاؤں نہ جمتے۔ آیت (١١) میں فرمایا غور کرو، خدا کی کارسازی نے کس طرح یہ ساری مشکلیں حل کردیں؟ اس نے دلوں کو چین دینے کے لیے تم سب پر نیند غالب کردی، اٹھے تو دل کا سارا خوف و ہراس دور ہوچکا تھا، چنانچہ حضرت علی فرماتے ہیں بدر کی پہلی رات کوئی نہ تھا جو آرام سے سو نہ گیا ہو، ہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات بھر عبادت کرتے رہے۔ (بیہقی فی الدلائل) اور معلوم ہے جس کے دل میں خوف و خطر ہو وہ کبھی آرام سے سو نہیں سکتا۔ پس اس نیند کا طاری ہوجانا بے خوفی کا القا تھا۔ پھر عین موقع پر بارش ہوگئی اور افراط کے ساتھ سب کو پانی میسر آگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ نہا دھو کر صاف ستھرے ہوگئے، کوئی نہ تھا جو چست و چاق اور تازہ دم نہ ہوگیا ہو۔ بارش کی وجہ سے ریت بھی جم کر سخت ہوگئی۔ پاؤں کے دھنس جانے کا اندیشہ جاتا رہا، اپنی کامیابی کی طرف سے بے اعتمادی و مایوسی جو دراصل شیطانی وسوسے کی ناپاکی تھی اب کسی کے دل میں باقی نہیں رہی۔ آج کل فن جنگ میں جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ سپاہیوں کی اسپرٹ یعنی معنوی قوی درست رکھے جائیں۔ یہاں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے صرف اس بات نے کہ پانی کی ضرورت باقی نہیں رہی، ریت میں دھنسنے کا خطرہ جاتا رہا اور نہا دھو لینے کی وجہ سے جسم میں تازگی آگئی، لوگوں کے اندر جس درجہ خود اعتمادی اور سرگرمی پیدا کردی ہوگی اس کا اندازہ صرف اہل نظر ہی کرسکتے ہیں۔