سورة البقرة - آیت 80

وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ لوگ (یعنی یہودی) کہتے ہیں جہنم کی آگ ہمیں کبھی چھونے والی نہیں (کیونکہ ہماری امت خدا کے نزدیک نجات پائی ہوئی امت ہے) اگر ہم آگ میں ڈالے بھی جائیں گے تو (اس لیے نہیں کہ ہمیشہ عذاب میں رہیں بلکہ) صرف چند گنے ہوئے دنوں کے لیے (تاکہ گناہ کے میل کچیل سے پاک صاف ہو کر پھر جنت میں جا داخل ہوں)۔ اے پیغمبر ان لوگوں سے کہہ دو یہ بات جو تم کہتے ہو تو (دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو) تم نے خدا سے (غیر مشروط) نجات کا کوئی پٹہ لکھا لیا ہے کہ اب وہ اس کے خلاف جا نہیں سکتا، اور یا پھر تم خدا کے نام پر ایک ایسی بات کہہ رہے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

فریب خیال : (ف ١) یہودی اس فریب خیال میں مبتلا تھے کہ چونکہ ہم انبیاء کی اولاد سے ہیں ، اس لئے اللہ کے زیادہ سے زیادہ مقرب ہیں ، (آیت) ” نحن ابناء اللہ واحباء ہ “۔ اور اس لئے ضروری ہے کہ ہماری نجات ہو ۔ اور ہم جو چند دن جہنم میں رہیں گے بھی تو وہ محض تزکیہ اور گناہوں کے کفارہ کے لئے ورنہ درحقیقت کوئی یہودی جہنم کے لئے پیدا نہیں کیا گیا ، گویا وہ مذہب کی حقیقت صرف اس قدر سمجھتے تھے کہ یہ ایک قسم کا انتساب تھا اور بس ، عیسائی بھی اس نوع کے غرور نفس میں یہودیوں سے کسی طرح پیچھے نہیں ، انجیل میں لکھا ہے کہ ” تو خداوند خدا پر ایمان لا تاکہ تو اور تیرا گھرانا نجات پائے “۔ گویا صرف مسیح (علیہ السلام) کی قربانی کا اعتراف سارے گھرانے کی نجات کے لئے کافی ہے ، اسلام کہتا ہے کہ اللہ نے کسی قوم سے کبھی اس قسم کا وعدہ نہیں کیا ، نجات قول وعمل کے اجتماع کانام ہے اور مجرم چاہے کون ہو ، سزاوار تعزیر ہے ۔ (آیت) ” لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب من یعمل سوء یجزبہ ۔ اس آیت میں یہ بھی بتایا کہ خدا کے وعدے جھوٹے ثابت نہیں ہوتے کیونکہ خدائی دعوی کے معنی یہ ہیں کہ وہ پورے علم وقدرت کے ساتھ ظہور پذیر ہوا ہے ۔ تکمیل عہد کا مطالبہ : بنی اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ صرف ایک خدا کی عبادت کرو ، والدین اور دیگر اقرباومساکین کے ساتھ حسن سلوک روا رکھو ، اور لوگوں کو اچھے الفاظ میں مخاطب کرو ، نماز پڑھو اور زکوۃ دو ، اور آپس میں لڑو جھگڑو نہیں ، مگر وہ تھے کہ ان باتوں سے روگردان رہے ، حل لغات : ویل : خرابی ۔ ہلاکت ، مصیبت ۔ خطیئۃ : لغزش ۔ گناہ ۔