سورة المآئدہ - آیت 106

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے ایمان والو ! (٧٣) جب تم میں سے کوئی مرنے کے قریب ہو تو وصیت کرتے وقت آپس کے معاملات طے کرنے کے لیے گواہ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ تم میں سے دو دیانت دار آدمی ہوں (جو تمہاری وصیت کے گواہ بنیں) یا اگر تم زمین میں سفر کر رہے ہو، اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیروں (یعنی غیر مسلموں) میں سے دو شخص ہوجائیں۔ پھر اگر تمہیں کوئی شک پڑجائے تو ان دو گواہوں کو نماز کے بعد روک سکتے ہو، اور وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم اس گواہی کے بدلے کوئی مالی فائدہ لینا نہیں چاہتے، چاہے معاملہ ہمارے کسی رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو، اور اللہ نے ہم پر جس گواہی کی ذمہ داری ڈالی ہے، اس کو ہم نہیں چھپائیں گے، ورنہ ہم گنہگاروں میں شمار ہوں گے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) اس سے پیشتر کی آیت میں حفظ مال کا ، واقعہ یہ ہے کہ تمیم انصاری اور اس کا بھائی تجارت کی غرض سے ملک شام کی جانب نکلے ، اس کے ساتھ بدیل عمرو بن عاص کا غلام بھی تھا ، جو مسلمان تھا راستے میں بدیل یکایک بیمار ہوگیا ، اس لئے احتیاطا اس نے اپنے سامان کی ایک فہرست مرتب کرلی ، اور وصیت کی کہ اگر میں مرجاؤں تو میری چیزیں میرے گھر پہنچا دینا ، چنانچہ وہ مر گیا ، اور ان کی نیت میں فرق آگیا ، کچھ چیزیں انہوں نے دیں اور کچھ رکھ لیں ، اتفاقا چیزوں کی فہرست جو انہوں نے دیکھی تو خیانت ظاہر ہوگئی مقدمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو پیش ہوا ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ حل لغات : شھادۃ : گواہی ، عثر : معلوم ہوجائے ، عام طور پر مجہول استعمال ہوتا ہے ۔