سورة البقرة - آیت 50

وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور پھر وہ وقت یاد کرو جب (تم مصر سے نکلے تھے اور فرعون تمہارا تعاقب کر رہا تھا) ہم نے سمندر کا پانی اس طرح الگ الگ کردیا کہ تم بچ نکلے مگر فرعون کا گروہ غرق ہوگیا، اور تم (کنارے پر کھڑے) دیکھ رہے تھے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٣) البحر سے مراد یہاں دریائے قلزم ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو آمادہ کرلیا کہ وہ راتوں رات ارض مصر سے نکل جائیں نہ یہ ہجرت اس لئے تھی کہ تاکہ فرعون کے اثر سے الگ رہ کر ان میں صحیح طریق پر دین کی روح پھونکی جائے ، غلامی سے دماغی اور ذہنی قوی کمزور ہوجاتے ہیں ‘ اس لئے ضرورت تھی کہ آزاد آب و ہوا میں انہیں لے جایا جائے ، فرعون کو جب یہ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل ہاتھ سے نکلے جاتے ہیں تو اس نے باقاعدہ بنی اسرائیل کا تعاقب کیا اور دریائے قلزم پر ان کو جالیا ، وہ دریا کے پھٹ جانے کی وجہ سے پار اتر گئے اور فرعون بمعہ اپنے لشکر کے دریا میں ڈوب گیا ، یہ اس لئے تھا کہ بنی اسرائیل اپنی آنکھوں سے دشمن کا عبرت ناک انجام دیکھ لیں اور ان میں جرات پیدا ہو ‘ انہیں خدا کے بھیجے ہوئے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں پر یقین ہو اور وہ دیکھ لیں کہ جو قوم اپنی فلاح وبہبود کے لئے ذرا بھی کوشاں ہوتی ہے اللہ کی رحمتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں ، دریا کا پھٹ جانا اور بنی اسرائیل کو راستہ دے دینا محض اتفاقی نہ تھا بلکہ بطور خرق عادت کے تھا صرف حسن اتفاق ہوتا تو فرعون بھی اس سے فائدہ اٹھالیتا ، حل لغات : عدل : معاوضہ ، بدل ، قسمت ، یسومون : تکلیف دیتے تھے ، دکھ دیتے تھے ۔ بلاء : امتحان ، آزمائش ۔ تکلیف ۔ فوقنا : فعل ماضی جمع متکلم ، مادہ فوق ، پھاڑنا ۔