سورة النسآء - آیت 41

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِيدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر (یہ لوگ سوچ رکھیں کہ) اس وقت ( ان کا) کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور (اے پیغمبر) ہم تم کو ان لوگوں کے خلاف گواہ کے طور پر پیش کریں گے؟ (٣١)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

شاہد اکبر : (ف ٣) اس آیت میں شان رسالت پناہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر جمیل ہے اور آپ کے رتبہ ختمیت وکمال کا تذکرہ ہے ۔ قیامت کے دن جب تمام لوگ جناب باری کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو بطور اتمام حجت کے پوچھا جائے گا کہ بتاؤ تمتک ہمارے احکام پہنچے تھے یا نہیں ؟ اور اس کے بعد انبیاء علیہم السلام ورسل کی جماعت فردا فردا بطور گواہ وشاہد کے پیش ہوگی اور کہے گی کہ خداوند ! ہم نے تیرے احکام بلاکم وکاست تیرے بندوں تک پہنچا دیئے ، اور اس کے بعد شاہد اکبر جلوہ فرما ہوگا یعنی خواجہ کون ومکان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور گواہی دے گا کہ سارے نبی سچ کہتے ہیں ۔ انہوں نے تبلیغ حق میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود بجائے خود تصدیق ہے تمام نبوتوں کی ، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبیوں کے نبی اور تمام رسولوں کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کے بغیر تمام نبوتیں ناقص ہیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو درجہ کمال وختمیت عطا کیا گیا ہے کہ آخری فیصلہ شہادت پر موقوف ہے ۔