سورة آل عمران - آیت 167

وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور منافقین کو بھی بھی دیکھ لے، اور ان (منافقوں) سے کاہ گیا تھا کہ آؤ اللہ کے راستے میں جنگ کرو یاد فاع کرو، تو انہوں نے کہا تھا کہ : اگر ہم دیکھتے کہ ( جنگ کی طرح) جنگ ہوگی تو ہم ضرور آپ کے پیچھے چلتے۔ (٥٧) اس دن ( جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے) وہ ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی (٥٨) اور جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) اس آیت میں ترک جہاد کو کفر سے تعبیر کیا ہے ، یعنی وہ لوگ جو وقت آنے پر حیل وتدابیر تراشتے رہتے ہیں ‘ ان کی دوں ہمتی انہیں میدان جہاد میں نکلنے نہیں دیتی ، انہیں اپنے ایمان کی تجدید کرنا چاہئے ، مسلمان روز ازل سے توحید کا اقرار کرچکا ہے ، اس کے لئے ناممکن ہے کہ ایک لمحہ بھی کفر سے موالات رکھے ، کم از کم اس کے دل میں ضرور کفر واستبداد کے خلاف جذبات نفرت وحقارت موجزن رہتے ہیں اور اگر یہ بھی نہیں تو قرآن حمید کی یہ ڈانٹ سن رکھیں (آیت) ” ھم للکفر یومئذ اقرب منھم لل ایمان “۔ یعنی اس دن وہ لوگ ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے ۔