سورة آل عمران - آیت 155

إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ پھیری جب دونوں لشکر ایک دوسرے سے ٹکرائے، درحقیقت ان کے بعض اعمال کے نتیجے میں شیطان نے ان کو لغزش میں مبتلا کردیا تھا۔ (٥٤) اور یقین رکھو کہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے۔ یقینا اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا بردبار ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تقدیر : (ف ١) عبداللہ بن ابی اور دوسرے منافق احد کی شکست کو اسلام کے خلاف بطور دلیل استعمال کرتے اور کہتے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سچے ہوتے تو ضرور فتح ہوتی اور ہمارے ساتھی کبھی میدان جنگ میں نہ مارے جاتے ، اس شبہ کا جواب گزشتہ آیات میں دیا جا چکا ہے کہ شکست نافرمانی ومعصیت کا نتیجہ ہے ۔ اگر تیر انداز درہ نہ چھوڑتے تو کبھی شکست نہ ہوتی میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا ۔ ان آیات میں ان کی دوسری کج حجتی کا جواب دیا ہے ، وہ یہ کہ مسلمان اگر جہاد کے لئے نہ نکلتے تو نہ مارے جاتے ، دوسرے لفظوں میں وہ ضعیف الاعتقاد مسلمانوں میں بد دلی اور بزدلی کے جذبات پیدا کرنا چاہتے تھے کہ موت وحیات ہمارے اختیار میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، یہ غلط وہم ہے ، زندگی اور اس سے محرومی اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ، جب خدا تمہاری موت کا فیصلہ کرچکا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تم بچے رہو ۔ تقدیر الہی قطعی اور حتمی ہے جس میں ذرہ برابر شک وشبہ نہیں ، وہ جو خدا کے علم میں ہے ہو کر رہے گا ۔ دنیا کی کوئی قوت اسے روک نہیں سکتی ، بڑے سے بڑا انسان بھی اپنی پوری دانش وعقل کے ساتھ تقدیر کے فیصلوں کے سامنے بیچارہ وعاجز ہے ، جس وقت سے انسان عرصہ شہود پر آیا ہے ، موت کے آہنی پنجہ میں گرفتار ہے اور یہ وہ قید ہے جس سے قطعا رہائی نہیں ۔ بڑے بڑے نماردہ اور فراعنہ اور وہ جنہیں خدا پر یقین نہیں ؟ موت کا شکار ہوتے ہیں اور اس ذلت کے ساتھ کہ سارا کبر وغرور خاک میں مل گیا ہے ، مگر مجبوری کے یہ معنی نہیں کہ ہمیں کبھی بھی اختیار نہیں ۔ مسلمانوں میں تقدیر وتدبیر کے متعلق دو گروہ ہیں ، ایک مطلقا اپنے آپ کو مجبور سمجھتے ہیں ، ایک وہ ہیں جو افعال میں اپنے آپ کو مختار سمجھتے ہیں ، دونوں کا منشانیک ہے ، مگر صحیح راہ درمیان واعتدال کی ہے یعنی نہ تو ہم اس درجہ مجبور ہیں کہ تکلیف شرعی سے ہی بےنیاز ہوجائیں اور نہ اس درجہ آزاد وخود مختار ہیں کہ خدا کی قدرت مطلقہ پر حرف آئے ، ان دونوں کے بین بین ہمیں اختیار بھی حاصل ہے ، اور قدرے مجبور بھی ہیں ، اور جس حد تک ہم مختار ہیں ‘ اپنے افعال کے ذمہ دار ہیں ، کوئی سمجھ دار انسان اس سے انکار نہیں کرسکے گا کہ ہمارے بعض افعال ضرور ایسے ہیں جنہیں ذمہ دارانہ افعال کہا جا سکتا ہے اور یہی وہ قدر ہے جس پر جزا وسزا مرتب ہوگی ۔ (ف ٢) ان آیات میں دوبارہ بعض صحابہ (رض) عنہم اجمعین کی لغزش کو ظاہر کیا ہے اور ساتھ ہی اعلان عفو بھی فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اب ان پر اعتراض کرنا گناہ ہے اور ہم تو قطعی اسحقاق نہیں رکھتے کہ صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین کے طرز عمل پر تنقید کریں ، ہم جو سر سے پاؤں تک گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں ، کیونکر ان پاکیزہ روح لوگوں پر اعتراض کریں جو (آیت) ” عفا اللہ عنھم “ کا درجہ حاصل کرچکے ہیں ، ہمارے اعمال کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے تمام نیکیاں ان کے ایثار وخلوص کے مقابلہ میں پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی جگہ وہ بتقاضائے بشری اپنی کمزوریوں سے واقف ہوں اور خائف ہوں ہم جس مقام میں ہیں ہمیں قطعا زیبا نہیں کہ مزکی اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) عنہم اجمعین پر زبان طعن دراز کریں ۔ اعاذنا اللہ عنہ ۔