سورة آل عمران - آیت 55

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اس کی تدبیر اس وقت سامنے آئی) جب اللہ نے کہا تھا کہ : اے عیسیٰ میں تمہیں صحیح سالم واپس لے لوں گا، (٢٣) اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان ( کی ایذا) سے تمہیں پاک کردوں گا۔ اور جن لوگوں نے تمہاری اتباع کی ہے، ان کو قیامت کے دن تک ان لوگوں پر غالب رکھوں گا جنہوں نے تمہارا انکار کیا ہے۔ (٢٤) پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حیات مسیح (علیہ السلام) : (ف ١) ایک طرف یہودیوں نے مسیح (علیہ السلام) کے خلاف وسیع پیمانے پر سازش کی اور حکومت وقت کو مجبور کردیا کہ وہ انہیں باغی سمجھے اور سزا دے ، اسی کا نام قرآن حکیم کی زبان میں ” مکر “ ہے ، یعنی تدبیر محکم اور خفیہ ارادہ ، دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے ارادے کام کر رہے تھے ، اللہ تعالیٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو دشمنوں کی زد سے صاف بچا لینا چاہتے تھے ، اور یہودیوں کو دکھانا چاہتے تھے کہ آسمانوں پر ایک زبردست اور علیم وحکیم خدا بھی موجود ہے جو تمہاری سازش کو جانتا ہے اور اس کی قدرت واختیار میں ہے کہ تمہیں تمہارے ارادوں میں ناکام رکھے ، (آیت) ” واللہ خیر الماکرین “۔ جب مقابلہ ہوا انسانی تدابیر وحیل کا اور مادی وارضی منصوبوں کا احکم الحاکمین رب عرش عظیم کی قدرت ومنشا سے تو ظاہر ہے الہی ارادے کامیاب رہیں گے اور شیطان خائب وخاسر ، اگر مان لیا جائے کہ مسیح (علیہ السلام) یہود کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے اور صلیب پر لٹک گئے تو بتاؤ فتح کس کی ہے خدا کی یا شیطان کی ؟ خدا نے واشگاف طور پر فرما دیا ہے کہ ہم نے یہودیوں کو ناکام رکھنے کے لئے مضبوط ومستحکم ارادہ کرلیا اور یہ بھی فرما دیا کہ ہمارے ارادے زیادہ بہتر اور کامیاب ہوتے ہیں تو پھر اس بےچارگی وبے بسی کے کیا معنی کہ مسیح (علیہ السلام) کو دشمنوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے ، مسیح (علیہ السلام) اگر صلیب پر لٹک کر بچ بھی جائیں تو اس میں یہودیوں کے دعوے (آیت) ” انا قتلنا المسیح “۔ پر کیا اثر پڑتا ہے وہ اس سے زیادہ اور کیا کرسکتے تھے کہ مسیح (علیہ السلام) کو موت کے دروازے پر لا کھڑا کریں ، ایک دشمن جو کچھ کرسکتا ہے ‘ وہ بقول بعض کیا جا چکا پھر خدا کی تدبیریں کیا ہوئیں ؟ خدا کے ارادے کہاں گئے ؟ مسیح (علیہ السلام) اگر مرہم لگا کر جانبر ہوگئے تو یہ ان کی خوش بختی کی ہے ، خدا کی فتح مندی ونصرت کی دلیل نہیں ؟ حالانکہ کہا گیا ہے کہ خدا ان کے تمام منصوبوں کے مقابلہ میں زیادہ کامیاب ہے ، بتاؤ اس صورت میں زیادہ کامیاب کون رہتا ہے ؟ کیا وہ جس کے اختیار میں ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کو اپنے برگزیدہ کو کوئی گزند نہ پہنچنے دے ، یا وہ جو مسیح (علیہ السلام) کو موت کے قریب لا سکتے تھے وہ جنہوں نے مسیح (علیہ السلام) کو دار تک لاکھڑا کیا اور وہ تمام سزائیں دیں جو ان کے اختیار میں تھیں ، مگر خدا نے اپنے وسیع اختیارات سے کوئی کام نہ لیا ، بتاؤ اس میں یعنی اس صورت میں مقابلہ میں کس کا پلہ زیادہ بھاری رہتا ہے ؟ چاروعدے : (ف ٢) ان حالات میں جبکہ یہودی حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مشن کو تباہ کردینا چاہتے تھے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دشمن ہو رہے تھے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) سے چار وعدے کئے اور انہیں بشارت دی کہ تم مطلقا کوئی فکر نہ کرو ، ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ ٍ پہلا وعدہ : یہ تھا کہ (آیت) ” انی متوفیک “ یعنی تیری موت طبعی ہوگی تو دشمنوں کے ہاتھوں محفوظ رہے گا اور وہ تجھے کوئی نقصان یا گزند نہ پہنچا سکیں گے ۔ دوسرا وعدہ : یہ تھا کہ (آیت) ” ورافعک الی “۔ یعنی میں تمہیں اٹھالوں گا ” رفع “ کے معنی عزت ورفعت دینے کے بھی ہوتے ہیں ، مگر بصلہ الی نہیں اگر یہاں مقصود عزت ورفعت ہوتی تو عبارت یوں ہوتی ” ورافعک لدی “۔ تیسرا وعدہ : یہ تھا کہ (آیت) ” ومطھرک “۔ یعنی کفرونفاق کی تمام تہمتوں سے تمہیں پاک رکھوں گا ، اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی طرف نہایت باریک اشارہ ہے ۔ چوتھا وعدہ : یہ تھا کہ (آیت) ” وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا “۔ یعنی تیرے ماننے والے تیرے نہ ماننے والوں پر غالب رہیں گے کفر واتباع دونوں کو قرآن حکیم نے مطلق رکھا ہے ، اس لئے دونوں کا عموم بحال رہے گا ، یعنی مسیح کا ہر ماننے والا اس کے ہر منکر پر غالب رہے گا اس صورت میں اس میں مسلمان بھی شامل ہیں ۔