سورة البقرة - آیت 210

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر یہ لوگ کس بات کے انتظام میں ہیں؟ کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ خدا ان کے سامنے نمودار ہوجائے (اور اس طرح نمودار ہوجائے کہ) بادل اس پر سایہ کیے ہوں اور فرشتے (صف باندھے کھڑے) ہوں اور جو کچھ ہونا ہے ہوچکے؟ (اگر اسی بات کے منتظر ہیں تو یاد رکھیں یہ بات دنیا میں تو ہونے والی نہیں) اور تمام کاموں کا سر رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

خدا کی آمد : (ف ١) وہ لوگ جو منکر ہیں ان کو ہرچند دلائل وبراہین سے قائل کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن وہ بغض وعناد پر ہی قانع رہے یعنی جب انہیں عاقبت کی سختی سے ڈرایا جاتا تو وہ کہتے ، ہم نہیں ماننے کے ، ہم پر کیوں عذاب نہیں آجاتا ، آخر اس میں تامل کیا ہے ؟ چنانچہ قرآن حکیم نے ان کے اس مقولے کو نقل فرمایا کہ (آیت) ” فاسقط علینا کسفا “۔ یعنی ہم پر آسمان ٹوٹے پڑے ، ہم بالکل اس کے لئے آمادہ ہیں ۔ اس آیت میں بھی ان کی اس ذہنیت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کی سرکشیاں حد سے گزر گئی ہیں اور عذاب الہی کے سوا یہ مجاز ہے مقصد عذاب الہی کی آمد ہے ، قرآن حکیم نے اس طرح کے انداز بیان کو دوسری جگہوں میں استعمال کیا ہے ۔ جیسے (آیت) ” فاتی اللہ بنیانھم من القواعد “۔ یا (آیت) ” فاتھم اللہ من حیث لم یحتسبوا “۔ ورنہ وہ ہر طرح کی جسمانیت سے پاک اور برتر ہے ۔