سورة التوبہ - آیت 43

عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) اللہ تجھے بخشے ! تو نے ایسا کیوں کیا کہ (ان کی منافقانہ عذر دارویوں پر) انہیں (پیچھے رہ جانے کی) رخصت دے دی؟ اس وقت تک رخصت نہ دی ہوتی کہ تجھ پر کھل جاتا کون سچے ہیں اور تو معلوم کرلیتا کون جھوٹے ہیں؟

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) مقصد یہ ہے کہ متخلفین کو اجازت دینے میں آپ سے تسامح ہوا ہے ، چاہئے یہ تھا کہ چندے انتظار فرما لیتے اور دیکھ لیتے کہ اللہ تعالیٰ ان کے باب میں کیا تصریحات نازل فرمانے والا ہے ۔ (آیت) ” عفا اللہ عنک “ ۔ کہہ کر بدرجہ غایت تلطف ومہربانی کا اظہار فرمایا ، جس کے معنی یہ ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر تسامح چونکہ ایک بلند اخلاقی نصب العین کے ماتحت صادر ہوتا ہے ، اس لئے ابتدا ہی سے درخور عفو ہے ، گو اس سے منشاء الہی کی مخالفت ہو ۔ آپ نے انہیں اجازت اس لئے مرحمت فرما دی کیونکہ آپ کی فطرت میں عفو وکرم بدرجہ اتم موجود تھا ، آپ پیغمبرانہ محبت والفت کی وجہ سے مجبور تھے کہ ان کی معذرت قبول فرما لیں ۔