سورة التوبہ - آیت 23

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مسلمانو ! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلہ میں کفر کو عزیز رکھیں تو انہیں اپنا رفیق و کارساز نہ بناؤ، اور جو کوئی بنائے گا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو (اپنے اوپر) ظلم کرنے والے ہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) غرض یہ ہے کہ اسلام کے بعد پرانے تعلقات منقطع ہوجاتے ہیں ، اور نئے رشتے استوار ہوتے ہیں ، وہ لوگ جو منکر ہیں ، جنہوں نے کفر کو ترجیح دی اور ایمان کو ٹھکرا دیا ، ان سے ایک مسلم کا کوئی رشتہ ناطہ نہیں ‘ وہ اخلاقی اعانت کے مستحق ہیں ، مگر اس بات کی اجازت نہیں کہ مسلمان انہیں معتمد سمجھیں ، اور ان سے مسلمانوں کے راز کی بات کہہ دیں ان پربھروسہ کرنا گناہ ہے کیونکہ ان کے تعلقات ذاتی طور پر مسلمان کے ساتھ ہو سکتے ہیں ، مگر بالعموم وہ اسلام کی شان وشوکت کو نہیں دیکھ سکتے ۔ بات یہ ہے کہ جب اعلان برات ہوا اور صاف طور پر کفر سے علیحدگی اختیار کرلی گئی تو اس وقت صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین نے کہا ، ہمارے مکہ والوں سے تعلقات ہیں ، رشتہ داریاں ہیں ، یہ کیسے لچھوٹ سکتی ہیں ، اس پر اللہ نے فرمایا ، ان سے دوستداری کے اتفاقات منقطع ہیں ، اور جو اس واضح اعلان کے بعد بھی ان سے تعلقات قائم رکھے گا ، وہ ظالم ہے ۔ یعنی سیاسی مصالح کا اقتضاء یہ ہے کہ مخالفین پر اعتماد نہ کیا جائے ۔