سورة البقرة - آیت 111

وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یہودی کہتے ہیں جنت میں کوئی آدمی داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو۔ اسی طرح عیسائی کہتے ہیں جنت میں کوئی داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ عیسائی نہ ہو۔ (یعنی ان میں سے ہر گروہ سمجھتا ہے آخرت کی نجات صرف اسی کے حصے میں آئی ہے اور جب تک ایک انسان اس کی مذہبی گروہ بندی میں داخل نہ ہو نجات نہیں پاسکتا۔ (اے پیغمبر) یہ ان لوگوں کی جاہلانہ امنگیں اور آرزوئیں ہیں۔ نہ کہ حقیقت حال۔ تم ان سے کہ اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو تو ثابت کرو تمہارے دعوے کی دلیل کیا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مذہب دلائل پرمبنی ہے : (ف ٣) اہل دین کی یہ خطرناک غلطی ہے کہ وہ ظاہری رسوم کو اصل دین سمجھ لیتے ہیں کہ اور اس کی روح سے ناواقف ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان میں اختلا واقع ہوتا ہے ۔ ورنہ روح وروائح کے لحاظ سے تمام آسمانی ادیان ایک ہیں اور اسلام ان سب ادیان کی آخری اور مکمل صورت ہے یہودی نے اسی بنا پر عیسائیت کا انکار کای اور عیسائی نے یہودیت کا ، اور پھر غرور مذہبی کی بھی حد ہوگئی کہ دونوں نے اپنے فرقوں کو نجات کا واحد اجارہ دار سمجھ لیا ، قرآن حکیم کہتا ہے ، تم اپنے تعصب کو عقل وبرہان کی روشنی میں دیکھو ، کیا اس کی کچھ بھی قیمت رہ جاتی ہے ، اگر خدا ایک ہے ، آدم (علیہ السلام) سے لے کر اسرائیل تک تو پھر اس کا دین بھی ایک ہونا چاہئے ۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) نبی ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ مسیح (علیہ السلام) خدا کے برگزیدہ نبی نہ ہوں ۔ دلائل وبراہین کا استعمال کرو ، ان تعصبات کا خاتمہ ہوجائے گا ، اس کے بعد اصل دین ، روح ، مذہب اور خالص روحانی تخیل پیش کیا ، جس کا جاننا مدار نجات ہے اور انکار کفر ، اور وہ ہے ، اسلام “ یعنی کامل نظام کے ساتھ اللہ کے سامنے جھک جانا ۔ اس کے سوا نہ یہودیت کسی کام کی ہے اور نہ عیسائیت ” خلوص واسلام “ ہونا چاہئے ، پھر دنیا وعقبی کی ہر منزل بےخوف وخطر طے ہوجائے گی ۔ حل لغات : تبین : ظاہر ہوا ۔ فاعفوا واصفحوا ، مادہ عفو ، معاف کردینا ، اور صفح ، درگزر کردینا ہے امر : بات حکم ، چیز ۔ بلی : ہاں ضرور ۔