سورة الاعراف - آیت 148

وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور پھر ایسا ہوا کہ موسیٰ کی قوم نے اس کے (پہاڑ پر) چلے جانے کے بعد اپنے زیور کی چیزوں سے (یعنی زیور کی چیزیں گلا کر) ایک بچھڑے کا دھڑ بنایا جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی اور اسے (پرستش کے لیے) اختیار کرلیا۔ (افسوس ان کی عقلوں پر) کیا انہوں نے اتنی (موٹی سی) بات بھی نہ سمجھی کہ نہ تو وہ ان سے بات کرتا ہے۔ نہ کسی طرح کی رہنمائی کرسکتا ہے؟ وہ اسے لے بیٹھے اور وہ (اپنے اوپر) ظلم کرنے والے تھے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بچھڑا : (ف ١) سامری کی گمراہ کن تعلیم سے متاثر ہو کر بنی اسرائیل نے گوسالہ کی پرستش شروع کردی جس میں سے ایک قہم کی آواز آتی تھی سامری ہوشیار آدمی تھا اس نے اسے کچھ اس ترکیب سے بنایا کہ وہ بولنے لگا ہوا اس طرح اس کے منہ سے خارج ہوتی کہ آواز معلوم ہوتی ، بنی اسرائیل سادہ اور سہل اندیش تھے ، اس لئے انہیں گوسالہ ایک معجزہ معلوم ہوا ، دل میں پہلے سے بت پرستی کی خواہش تھی ، تفصیلات اب تک پہنچی نہیں تھیں حضرت ہارون (علیہ السلام) کی چیخ وپکار کو انہوں نے زیادہ اہمیت نہ دنی نتیجہ یہ ہوا کہ قوم کی قوم شرک کی بیماری میں مبتلا ہوگئی ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، کم بختوں نے یہ نہیں سوچا یہ گفتگو تو کرتا نہیں نہ راہنمائی کی اس میں استعداد ہے ، پھر پرستش کے لائق کیونکر ہو سکتا ہے ۔ حل لغات : سقط فی ایدیہ : محاورہ ہے ، جیسے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے یعنی سخت نادم اور پشیمان ہوئے ۔