سورة البقرة - آیت 30

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اور اے پیغمبر اس حقیقت پر غور کر) جب ایسا ہوا تھا کہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا : "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" فرشتوں نے عرض کیا "کیا ایسی ہستی کو خلیفہ بنایا جا رہا ہے جو زمین خرابی پھیلائے گی اور خونریزی کرے گی؟ حالانکہ ہم تیری حمد و ثنا کرتے ہوئے تیری پاکی و قدوسی کا اقرار کرتے ہیں (کہ تیری مشیت برائی سے پاک اور تیرا کام نقصان سے منزہ ہے) اللہ نے کہا " میری نظر جس حقیق پر ہے، تمہیں اس کی خبر نہیں"۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(30۔33) یاد تو کر جب اس مالک الملک تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر اپنا ایک نائب بنانے کو ہوں۔ جو سب دنیا کی آبادی پر حکمرانی کرے۔ اور تمام اشیاء اس کی تابعدار ہوں یعنی آدم اور اس کی اولاد۔ یہ معلوم کرکے کہ اس نائب حکومت میں ہر قسم کی خواہشات بھی ہونگی وہ بولے کہ اس کے اجزا عناصراربعہ تو آپس میں متضاد ہیں ایسی ترکیب کی شئے سے بے جاجوش اور خون خرابے کچھ بعید نہیں۔ کیا آپ ایسے شخص کو نائب حکومت بناتے ہیں جو اس زمین میں فساد کرے۔ اور خون بہائے۔ اگر خلیفہ ہی بنانا منظور ہو تو ہم خاکسار ان خدام قدیمی اس منصب کے لیے ہر طرح سے قابل ہیں۔ اس لیے کہ ہم تو علاوہ اخلاص قلبی کے تیری خوبیاں بیان کرتے رہتے ہیں اور تجھے پاکی سے یاد کرتے ہیں۔ علاوہ اس کمال عملی کے ہم میں کمال علمی بھی پایا جاتا ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔ چونکہ ان کا یہ ضمنی دعویٰ کہ ہر چیز کو جاتے ہیں بالکل غلط تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو کئی طرح سے غلط کیا پہلے تو یہ کہا کہ یقینا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ جس نیابت کے لئے انسان کو بنایا جاتا ہے اس نیابت کی اسی میں قابلتج ہے۔ دوم عملی طور سے اس کو غلط کیا کہ آدم کو بعد پیدائش سب چیزوں کے نام سکھائے پھر وہ فرشتوں کو دکھا کر۔ کہا کہ ان اشیاء کے نام مجھے بتاؤ۔ اگر تم اپنے دعوے ہمہ دانی میں سچے ہو۔ اس عملی مقابلہ سے عاجز آکر وہ بولے کہ بیشک ہمارا علم ناقص ہے توں سب نقصانوں سے پاک ہے ہمارا خیال ہمہ دانی غلط ہے بلکہ اصل یہ ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں جانتے مگر اسی قدر جو تو نے ہم کو سکھایا ہے۔ بیشک ہمیں یقین ہے کہ تو ہی بڑے علم اور حکمت والا ہے جو کچھ تو کرتا ہے اس میں کمال درجہ کی حکمت ہوتی ہے اور اس حکمت کو بھی کما حقہ سوا تیرے کوئی نہیں جانتا۔ اس کے بعد ان کا بقیہ گمان دفع کرنے کو آدم سے کہا کہ اے آدم تو ان کو ان چیزوں کے نام بتلادے۔ پس جب حسب ارشاد اللہ اس (آدم علیہ السلام) نے ان کو ان چیزوں کے نام بتلائے اور فرشتوں نے سب ماجرا بچشم خود دیکھا اور جان لیا کہ ہمارا زعم کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں غلط ہے تو اللہ نے تنبیہاً ان کو خطاب کرکے کہا۔ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمان و زمین کی سب چھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں۔ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو وہ بھی جانتا ہوں سر سید کی چوتھی غلطی : (فرشتوں سے کہا) یہ پہلا ہی موقع ہے کہ قرآن کریم میں فرشتوں کا صریح ذکر آیا ہے۔ چونکہ زمانہ حال کے محققوں نے اس مسئلہ میں بھی عجیب قسم کا اختلاف نہ صرف مسلمانوں سے بلکہ جملہ ادیاں (یہود و نصارٰی) سے بھی بلاوجہ پیدا کیا ہے اس لئے اس موقع پر ہم بھی اگر کسی قدر تفصیل سے لکھیں تو ہمارا حق ہے فرشتہ کا لفظ (جسے عربی میں ملک اور ملایکہ کہتے ہیں) اصلی تو انہیں معنے میں اطلاق ہوتا ہے جس کو عام مسلمان بلکہ یہود نصارٰی اور عرب کے مشرک سمجھا کرتے تھے کہ اللہ کی ایک مخلوق ہے جو گناہوں سے پاک اور اللہ کے حکم کی تابعدار۔ اس کی عبادت میں ہر وقت مشغول رہتے ہیں کسی کا زمین سے تعلق ہے۔ کسی کا آسمان سے۔ آسمان والے بحکم الٰہی زمین پر آجاتے ہیں اور زمین والے آسمان پر جاسکتے ہیں۔ ان کو اللہ نے ایسابنایا ہے کہ ہوا کی طرح مرئی اور مشاہد نہیں ہوتے ہاں جب چاہیں اپنی شکل یا کسی آدمی کی صورت میں دکھائی دے سکتے ہیں وہ انبیاء پر اللہ کا پیغام لاتے ہیں اگر کوئی قوم سرکشی کرے تو اس کی ہلاکت بھی بحکم الٰہی انہیں کے ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ یہ خلاصہ ہے ان معنوں کا جن پر اہل ادیان ” فرشتہ“ بولتے ہیں مگر مشرکین عرب میں ایک بات زائد تھی کہ وہ ملائکہ کو بوجہ ان کے مستور ہونے کے اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے چنانچہ قرآن کریم نے ان کی مذمت کے موقع پر فرمایا وَجَعَلُوا الْمَلٰئِکَۃَ الَّذِیْنَ ھُمْ عِبَادْ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا اور اس قول شنیع کے رد کے لئے ارشاد فرمایا اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓئِکَۃَ اِنَاثًا وَّھُمْ شَاھِدُوْنَ یہود و نصاریٰ کی کتاب تورٰیت انجیل تو اس مضمون سے پر ہیں احادیث نبویہ میں تو اس کا ذکر تبصریح ہے کہ حضرت جبرئیل آنحضرتﷺ کے پاس دحیہ کلبی صحابی کی صورت میں آیا کرتے تھے۔ غرض ان معنے سے کسی مسلمان نہ کسی یہودی نہ عیسائی کو انکار ہے کہ فرشتے اللہ کی ایک مخلوق جدا گانہ ہیں۔ ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ مگر زمانہ حال کے محقق سرسید احمد خاں ان معنے کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس سے سخت انکاری ہیں چنانچہ اپنی تفسیر کی جلد اوّل کے صفحہ ٤٩ پر رقمطراز ہیں :۔ ” جن فرشتوں کا قرآن میں ذکر ہے ان کا کوئی اصلی وجود نہیں ہوسکتا بلکہ اللہ کے بے انتہا قدرتوں کے ظہور کو اور ان قویٰ کو جو اللہ نے اپنی تمام مخلوق میں مختلف قسم کی پیدا کی ہیں ملک یا ملائکہ کہا ہے جن میں سے ایک شیطان یا ابلیس بھی ہے “ تعجب ہے کہ سرسید اوروں پر تمسخر اور ہنسی تو آڑایا کرتے ہیں کہ ہمارے مفسرین کو بےدلیل کہنے کی عادت ہے۔ فلاں قوم امام رازی کا بےدلیل ہے فلاں توجیہ بیضاوی کی بے ثبوت مگر خود کہتے ہوئے یہ قاعدہ ہی بھول جائیں۔ کہ دعویٰ پر دلیل پیش کرنا بھی کوئی شئے ہوتا ہے۔ سید صاحب ! اس پر کیا دلیل ہے کہ ملائکہ سے مراد انسان کے قویٰ ہیں۔ حالانکہ انسان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی فرشتوں کو اعلان کیا جاتا ہے کہ جب ہم آدم کو پیدا کریں گے تو تم نے اسے سجدہ کرنا۔ اس آدم سے مراد آپ نوع انسان ہی مراد لے لیں۔ اور اس قصہ کو ایک فطری تمثیل ہی کیوں نہ کہیں۔ بہر حال یہ تو آپ کو ماننا ہوگا کہ انسان سے فرشتوں کا (یا بقول آپ کی قویٰ کا) وجود پہلے تھا۔ تو پھر فرما دیں کہ کسی شئے کے عوارض کو (جو وجود میں بہرحال اس سے مؤخر ہوں) مقدم سمجھ کر ایک مضمون گانٹھنا فرضی نہیں تو کیا ہے؟ جسے آپ بھی صفحہ ٥٤ پر شاعرانہ جھوٹ فرما چکے ہیں۔ نیز کفار کا درخواست کرنا کہ اس رسول کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترتا جو اس کے ساتھ ساتھ ہو کر لوگوں کو ڈراوے بالکل بے معنے ہے اس لئے کہ قویٰ انسانیہ کا (جو بقول آپ کے ملائکہ ہیں) ظاہر ہو کر کسی کو ڈرانا کیا معنے؟ وہ تو ایسے مستور ہیں کہ ان کا بذات خود ظاہر اور مشاہد ہونا ہی مشکل بلکہ محال ہے۔ ہاں آپ کا ابوعبیدہ کے شعر ؎ لست لانسی واکن بملاک تنزل فی جوّ السماء بصوب سے استدلال کر کے اس امر کا ثبوت دینا کہ عرب قدیم اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے مشرک قویٰ پر ملَک کا لفظ بولا کرتے تھے بہت ہی تعجب انگیز ہے جناب من ! کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ قائل کا مذہب بھی یہی ہو کہ مینہ برسانے پر فرشتے مقرر ہیں اور ممدوح کو ان فرشتوں سے تشبیہ دیتا ہو۔ جیسا کہ عرب کے شعرا کا عموماً دستور ہے چنانچہ ایک شاعر نے اپنی محبوب کو چاند سے تشبیہ دے کر کہا ہے لاتعجبوا ! من بلاغالتہ قد زراز رارہ علے القمر اس قسم کی تشبیہیں تو کوئی عرب ہی کا خاصہ نہیں۔ آپ نے اردو کا شعر بھی سنا ہوگا ؎ وہ نہ آئیں شب وعدہ تو تعجب کیا ہے رات کو کس نے ہے خورشید درخشاں دیکھا؟ (اے ممدوح) تو آدمی نہیں بلکہ فرشتہ ہے جو آسمان سے بارش اتارتا ہے۔ ! میرے محبوب کے دامن کہنہ ہونے سے تعجب نہ کر کیونکہ وہ ہے اس کا لباس کتان ہے جو قمر کو پہنایا گیا ہے۔ دیکھیں یہاں پر شاعر نے ایسا مبالغہ کیا ہے کہ محبوب کو ہو بہو سورج ہی بنا دیا۔ پھر آپ کا اس آیت قرآنی قالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَّلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَایُنْظَرُوْنَ۔ وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَایَلْبِسُوْنَ کو نفی وجود ملائکہ بالمعنے المتعارف میں پیش کرنا پہلے سے بھی زیادہ تعجب انگزل ہے۔ خوش قسمتی سے جو دلیل آپ کے مخالف کی ہوتی ہے اسے شاید یاد بھی نہ ہو۔ آپ اسے اپنی سمجھ کر پیش کردیتے ہیں۔ بھلا اگر ملک کا اطلاق قویٰ ملکوتیہ پر ہے تو آیت کے کیا معنے ہوں گے یہ کہ اس رسول پر قویٰ کیوں نہیں اتاری گئیں۔ جس کا جواب ملتا ہے کہ اگر ہم قویٰ ملکوتیہ اس رسول کو بناتے تو ضرور اس رسول کو (یا ان قویٰ کو) بشر بناتے۔ پھر بھی تم کو وہی شبہ ہوتا جو ہو رہا ہے۔ سبحان اللہ ! اس قرآن دانی اور فہم معانی کے کیا کہنے۔ حضرت ! اوّل تو کفار کو کیسے خبر تھی کہ اس رسول کے قویٰ نہیں جن کے نزول کی انہوں نے درخواست کی۔ درخواست سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی شئے مرئی اور مشاہدہ کی تھی جو بالکل دیکھنے سے تعلق رکھتی ہو۔ قویٰ کا مرئی ہونا کیا معنے؟ پھر جناب باری کی طرف سے یہ جواب ملنا کہ اگر ہم قویٰ ملکوتیہ اس رسول کو بناتے تو ضرور بشر ہی بناتے۔ کیسا منطبق ہوگا۔ سید صاحب ! آپ بھولے کیوں پھرتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر تو دوسری آیت سورۃ فرقان کی کر رہی ہے۔ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا دیکھئے تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کفار کو کسی شئے مرئی کی خواہش تھی چنانچہ اسی سورۃ کی دوسری آیت میں اس سے بھی واضح بیان ہے۔ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآَئَ نَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ نَریٰ رَبَّنَا۔ اس سے تو صاف روز روشن کی طرح معلوم ہوتا ہے کہ واقعی کفار کو کسی چیز قابل دید کی درخواست تھی جب ہی تو جناب باری تعالیٰ نے ان کے جواب میں یْوَم یَرَوْنَ الْمَلٰٓئِکَۃَ لَابُشْرٰی یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ فرمایا۔ اگر شئے مرئی کی درخواست نہ ہوتی تو جواب میں رویت کا ذکر کیا معنے رکھتا ہے پس ثابت ہوا کہ کفار عرب ملک کے لفظ کو کسی شئے مرئی پر بولتے تھے۔ جو قوٰے ملکوتیہ کی طرح نہیں ہوسکتیں۔ کیونکہ وہ مرئی اور مشاہد نہیں ہیں۔ پھر سرسید کا کہنا کہ ” جہاں تک ہم نے تفتیش کی ہے قدیم عربوں کے لفظ ملک یا ملائکہ کی نسبت ایسا خیال جیسا کہ یہودیوں کا ہے ثابت نہیں ہوا۔“ بالکل بے معنی ہے اس لئے کہ اوّل تو عدم علم سے عدم شئے کا لازم نہیں آتا۔ ممکن ہے کہ ہو اور ان کو نہ ملا ہو۔ اور اگر واقع میں قدیم عرب نے ملک کا لفظ ان معنے مشہور میں استعمال نہ کیا ہو تو کیا حرج ہے جب کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب کے مشرک ملک کے یہی معنے سمجھتے تھے اور اسی کے موافق ان کی درخواست بھی تھی جس کا جواب بھی یہی جتلا رہا ہے کہ جناب باری تعالیٰ کو بھی ان معنے سے انکار نہیں تو پھر یہ عذر تار عنکبوت سے کچھ زائد قوت بھی رکھتا ہے؟ اس کی مثال شرع میں صلوٰۃ زکوٰۃ ہے ان لفظوں کو قدیم عرب سے آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ انہیں معنے میں اطلاق کرتے تھے۔ جن میں کہ اب ہو رہے ہیں۔ دوسری مثال اس کی ہمارے زمانہ میں پریس لمپ وغیرہ ہیں کسی تحریر میں اگر پریس اور لمپ کا ذکر ہو تو کوئی شخص اس عذر سے اس کے معنے بدلنے چاہے کہ قدیم ہند میں ان لفظوں کو ان معنے میں نہیں بولتے تھے جن میں انگریزی رواج کے بولے جاتے ہیں۔ تو کیا اس کی یہ وجہ قابل شنوائی اہل دانش ہوگی؟ ہرگز نہیں۔ پھر بھلا اگر قدیم عرب ملک کو معنے متعارف پر نہ بولتے ہوں اور آنحضرت (علیہ السلام) کے عہد رشد مہد میں اس کا رواج ان معنے میں ہوا ہو۔ جس کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلکہ خود اللہ نے مسلم رکھا۔ تو معتبر نہ ہوگا۔ فتفکر۔ باقی رہا آپ کا کلام مقصود اور غیر مقصود میں فرق کرنا سو یہ بھی قطع نظر فی الجملہ غلطی کے اس جگہ نہیں چل سکتا۔ اس لئے کہ یہاں پر ملائکہ کا ذکر (حسب تقریر آپ کے) غیر مقصود نہیں بلکہ عین مقصود ہے کیونکہ وجود ملائکہ پر کسی امر کی تعلیق نہیں جو اس کو غیر مقصود کیا جائے بلکہ ایسے امر کی خبر ہے جو قرآن کریم کا مطلب اصلی ہے یعنی ثبوت قیامت اگر فرما دیں کہ قرآن کریم میں بہت سی جگہ کفار کے خیالات مان کر بھی ان کو توحید سکھائی گئی ہے تو گذارش ہے کہ یہ تو مشرکین عرب کا بھی عندیہ نہیں تھا کہ ایک دن ایسا ہوگا کہ اس میں ہم ملائکہ کو دیکھیں گے اور وہ روز جزا بھی ہے بلکہ وہ تو اسی وجہ سے قرآن پر خفا تھے کہ یہ قیامت کیوں بتلاتا ہے ئَ اِذَا مِتْنَاوَکُنَّا تُرَابًاط ذٰلِکَ رَجْعٌ بَعْیِدٌ اس کا شاہد عدل ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ سید صاحب یہ مانتے ہیں کہ ” ہمارے پاس کسی ایسی مخلوق کے ہونے سے جو کسی قسم کا جسم و صورت بھی نہ رکھتی جو ہم کو نہ دکھائی دیتی ہو انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔“ ص ٤٢ پھر فرشتوں کے ایسا ہونے سے کیوں انکاری ہیں نہ صرف انکاری۔ بلکہ ان کو نفی پر بزعم والا دلائل بیان کرتے ہیں۔ گو ان دلائل کا حاصل یہی ہوتا ہے۔ دوست ہی دشمن جاں ہوگیا اپنا حافظ ! نوش دارو نے کیا اثر سم پیدا اگر یوں فرما دیں کہ میرا انکار تو جب ہی تک ہے کہ قرآن سے فرشتوں کا ثبوت بمعنی متعارف ہو۔ اگر قرآن کی کسی آیت سے ان کا وجود مستقل ثابت ہوجائے گا تو مجھے بھی تسلیم سے انکار نہیں جیسا کہ صفحہ ١٤٢ سے مفہوم ہوتا ہے اور یہی تقاضا ایمانی ہے۔ تو گذارش ہے کہ آپ اگر انصاف سے غور کریں اور قرآن کو اس طور سے پڑھیں جس طور سے عرب کے رہنے والے سیدھے سادے جن کی زبان میں قرآن نازل ہوا تھا پڑھتے اور سمجھتے تھے۔ انہیں کے لغت پر بھروسہ کریں تو مطلب بالکل صاف ہے اور اگر اٰمَنْتُ باللّٰہِ کو بی بی آمنت کا بلا بتلا دیں تو خیر۔ دیکھو تو کیسے صریح لفظوں میں فرشتوں کا ثبوت ملتا ہے قال عز من قائل جَاعِلِ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیْٓ اَجْنِحْۃٍ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبَاعَ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآئُ۔ سرسید اور ان کے اتباع بتلا دیں اور ہماری معروضہ بالا گذارش کو زیر نظر رکھیں کہ ملائکہ کا رسول ہونا بلکہ پروار ہونا بھی ثابت ہے یا نہیں؟ اس پر بھی آپ بے پر کی اڑائیں تو اختیار۔ (منہ) ١ ؎ آریہ قوم کی غلطی : (اور آدم کو سب نام سکھائے) اس آیت کے متعلق بھی نافہموں نے بہت ہی ہاتھ پائوں مارے ہیں مگر بعد غور ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کی نافہمی اور تعصب کے نتائج ہیں۔ قرآن کریم اپنے معانی بتلانے میں بالکل صاف ہے اور بفضلہ تعالیٰ اس کے سمجھنے اور سمجھانے والے ہر زمانہ میں موجود رہے اور ہیں اور ہوں گے۔ ہماری ہمسایہ قوم آریہ نے اس کے متعلق بہت سے ورق سیاہ کئے ہیں جن کے دیکھنے سے اس قوم کی شوخی اور نئے جوش کا اندازہ ہوتا ہے۔ افسوس کہ اس قوم نے باوجود دعوٰی توحید کے جس کی وجہ سے یہ لوگ اسلام سے بہت ہی قریب ہوگئے تھے۔ بجائے فہم و فراست کے تعصب اور ضد سے کام لیا۔ اس آیت کے متعلق ان کے اعتراضات حسب تفصیل ذیل ہیں۔ (١) اللہ نے فرشتوں سے مشورہ کیا جس سے اس کی بے علمی ثابت ہوتی ہے (٢) باوجویکہ فرشتوں نے جواب معقول دیا مگر اللہ نے (معاذ اللہ) اپنی ہی بات پر ہٹ کی جس کا نتیجہ آخر وہی ہوا جو فرشتوں نے کہا (٣) اللہ نے فرشتوں سے (معاذ اللہ) دھوکا کیا۔ کہ ان کے مقابل آدم کو سب نام بتلا دئے اور مقابلہ کرایا۔ اگر یہی نام فرشتوں کو بتلا دیتا تو وہ بھی بتلا سکتے تھے آدم کی اس میں کون سی بزرگی ہے؟ جواب۔ میں کہتا ہوں سب آفتوں کی جڑ یہی ہے کہ متکلم سے اس کے کلام کے معنے دریافت کرنے سے پہلے ہی اس پر رائے زنی کی جائے اور آپ ہی آپ اس کی شرح کر کے حاشیہ چڑھایا جاوے۔ اس آیت کے معنی جن کی طرف ہم نے تفسیر میں اشارہ کیا ہے سمجھنے ہی سے سب اعتراضات اٹھ جاتے ہیں جو دراصل اپنے ہی دل کے غبارات ہیں۔ پہلے یہی غلط کہ اللہ نے مشورہ کیا۔ مشورہ نہیں کیا تھا۔ بلکہ اس امر کے متعلق ان فرشتوں کو ایک حکم سنانا تھا اس کے اعلان کرنے کو یہ اظہار کیا۔ چنانچہ اسی قصہ کو دوسرے مقام پر یوں بیان کیا ہے :۔ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ یہ مشہور ہے کہ ” تصنیف را مصنف نیکو کند بیاں“ پس اس قاعدہ کلیہ سے اس آیت نے اس کی پوری تفسیر کردی ہے کہ فرشتوں پر اس امر کا ظاہر کرنا اس غرض سے تھا کہ ایک حکم کی ان کو اطلاع دی جائے یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَہً کہہ کر ماتقولون فی ھٰذا الامر نہیں کہا جو مشورہ کا دستور ہے جیسا کہ بلقیس بیگم نے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے اپنا خیال ظاہر کر کے ماذَا تَاْمُرُوْنَ کہا تھا۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ؎ رموز مملکت خویش خسرواں دانند گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے بھی اس امر کو تسلیم کیا۔ اور اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ کہہ کر قصور مہم کا اعتراف کیا۔ تیسرے سوال کا جواب بھی میں نے تفسیر میں ادا کردیا ہے یعنی یہ کہ فرشتوں نے علاوہ اپنی پاکی اور بزرگی جتلانے کے دعوٰے ہمہ دانی بھی کا تھا یعنی نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ کے علاوہ ونعلم الاشیاء کلھاّ بھی کہا تھا اس لئے کہ صرف بزرگی اور زہد تو خلاف کو مستلزم نہیں جب تک کہ ثبوت علمی نہ ہو۔ قرینہ اس حذف کا یہ ہے کہ فرشتوں کے دعوٰے تقدیس اور زہد پر جناب باری تعالیٰ کی طرف سے اَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآئِ ھٰؤٓلَآئِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ارشاد ہے اگر فرشتوں کی طرف سے دعوٰے علم نہ ہوتا تو یہ بالکل اس کے مشابہ ہوتا ہے جو کسی مولوی صاحب نے کسی دہقانی کو سمجھایا کہ تہبند ٹخنوں سے اونچا رکھ وہ بولا کہ تیرے باپ نے دعوت کی تھی تو نمک زائد نہیں ڈال دیا تھا؟ مولوی صاحب نے پوچھا اس قصہ کو میرے وعظ سے کیا تعلق۔ دہقانی بولا۔ تعلق ہو یا نہ ہو۔ بات سے بات نکل آتی ہے۔ سو اگر فرشتوں نے دعوٰے علم نہ کیا ہوتا تو بجائے لَاعِلْمَ لَنَا کہنے کے یہ کہتے کہ صاحب ! اس سوال کو یہاں کہ علاقہ؟ ہمارا دعویٰ زہد ہے اور سوال ہم سے علم کا۔ چہ خوش : ع بہ ببین تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ پس یہ ارشاد اَنْبِئُوْنِیْ اور اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ جب ہی درست اور مناسب ہوسکتا ہے کہ فرشتوں نے کوئی دعویٰ علمیت بھی کیا ہو۔ جس کے جواب میں ان کی غلط فہمی رفع کرنے کو یہ ضروری ہوا کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو سب نام سکھائے جائیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ بہت سے امور ایسے بھی ہیں جنیں ہم نہیں جانتے جب بھی تو اس الزام کے بعد سُبْحٰنَکَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ پکار اٹھے اور اپنے نقصان علم کے مقر ہوئے۔ اب بتلا دیں مدعی سست گواہ چست کا سا معاملہ ہے یا نہیں؟ اور فہم قرآن سے بے نصیبی کے آثار ہیں یا کچھ اور؟ رہا شیطانی جھگڑا سو اس کا جواب ختم اللّٰہ کے حاشیہ میں دے آئے ہیں فتذکر (منہ)