سورة البقرة - آیت 7

خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ان کے دلوں اور کانوں پر اللہ نے مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا سو (جن لوگوں نے اپنا یہ حال بنا لیا ہے) وہ کبھی ہدایت نہیں پاسکتے۔ کامیابی کی جگہ، ان کے لیے عذاب جانکاہ ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

اب انکی ایسی بری حالت ہے کہ کوئی سچی بات انکے ذہن تک رسائی کر ہی نہی سکتی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انکے دلوں کو قبو لیت حق سے اور کانوں کو حق سننے سے بند کردیا اور انکی آنکھوں پر پردہ ہے پس تینوں طریق انسان کی ہدایت کے ہوتے ہیں سو اللہ تعالیٰ نے انکی سر کشی اور لا پر واہی کے سبب سے تینوں کو بند کردیا اور اسی پر بس نہیں بلکہ چونکہ یہ لوگ بڑے معاند اور مفسد ہیں قیا مت کے دن انکو عذاب بھی بڑاہی ہوگا۔ (خَتَمَ اللّٰہُ) اس مقام پر بعض لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ جب خود اللہ ہی نے ان کافروں کو گمراہ کیا اور ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھیں بند کردیں تو پھر ان کا قصور کیا؟ ایسے لوگوں کو عذاب کرنا انصاف سے دور ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں چونکہ یہ پہلی آیت ہے اس لئے ہم اس کے حاشیہ میں کسی قدر مفصل لکھیں گے اور پھر موقع بموقع اس کے حوالہ ہی پر قناعت کر جائیں گے مگر تحقیقی جواب سے پہلے یہ بتلانا ضروری ہے کہ اسلام کے قدیمی مہربان عیسائیوں نے اس مسئلہ کے متعلق جو زبان درازیاں کی ہیں بالکل انصاف سے بعید اور فہم کلام سے دور ہیں اور ان جنٹل میں عیسائیوں کی ایمانداری کا پورا ثبوت ہے۔ کہ انہوں نے اس معاملہ میں سونکن کے جلانے کو اپنی ناک کی بھی پرواہ نہ کی۔ قرآن کریم کی ان آیات پر اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ہاں کی بھی خبر نہ لی کہ تورٰیت انجیل نے بھی اس مسئلہ کو متعدد مقامات پر بوضاحت لکھا ہے۔ تورٰیت کی دوسری کتاب سفر خروج باب ٤ کے فقرہ ٢١ میں ہے :۔ عیسائیوں کی دوسری غلطی : ” اللہ نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کہا کہ جب تو مصر میں داخل ہو دے تو دیکھ سب معجزے جو میں نے تیرے ہاتھ میں رکھے ہیں فرعون کے آگے دکھلائیو۔ لیکن میں اس کے دل کو سخت کروں گا وہ ان لوگوں کو جانے نہ دے گا “ ایضاً ١٠ باب کے فقرہ ٢٧ میں لکھا ہے :۔ ” اللہ نے فرعون کے دل کو سخت کردیا۔ اس نے ان کا جانا نہ چاہا “ ایضاً ١١ باب کا فقرہ ١٠:۔ ” موسیٰ ( علیہ السلام) اور ہارون ( علیہ السلام) نے یہ عجائب فرعون کو دکھائے اور اللہ نے فرعون کے دل کو سخت کردیا کہ اس نے اپنے ملک سے بنی اسرائیل کو جانے نہ دیا “ اسی طرح مقامات ذیل میں بھی اس مسئلہ کا ذکر ہے۔ بغرض اختصار ہم صرف نام بتلانے ہی پر قناعت کرتے ہیں :۔ استثناء ٢ باب کا فقرہ ٣٠۔ ایضاً ٢٩ باب کا فقرہ ٤۔ یشوع ١١ باب کا ١٠۔ قاضیون ٩ باب کا ٢٣۔ سلاطین ٢٢ باب کا ٢١۔ زبور ١٠٥۔ ٢٥۔ ایضاً ١٤٨۔ ١٦۔ مثال ١٦ باب کا ٤۔ یسعیا ٦ باب کا ٩۔ ایضاً ٢٩ باب فقرہ ٩۔ متی ١٣ باب کا ١٤۔ لوقا ٨ باب کا ١٠۔ یوحنا ٦ باب کا ٢٤ وغیرہ۔ پادریوںؔ نے اپنے ہاں کی تو خبر نہ لی۔ لی ہوگی تو اپنی کلیسا میں رسوخ بڑھانے کو ناحق اسلام سے الجھے۔ پس پادری لوگ تو جب تک ان مقامات مذکورہ کا جواب نہ سوچ لیں ہم سے مخاطب نہیں ہوسکتے۔ فماَ ھو جوابھم فھو جوابناَ۔ رہا یہ امر کہ ایسی آیات قرآنی کا کیا مطلب ہے اور اس سوال کا حقیقی جواب کیا ہے۔ سو اس کے جواب دینے سے پہلے ہم چند اصول بتلانا مناسب جانتے ہیں تاکہ جواب سمجھنے میں آسانی ہو۔ اوّل : سوائے اللہ کے دنیا میں کوئی خالق نہیں۔ دنیا میں کیا جوہر کیا عرض بغیر خلق الٰہی کے پیدا نہیں ہوسکتا+ دوم : اللہ کا علم بہت ہی وسیع ہے ہر ایک چیز کو اس نے ایک ہی آن میں جان لیا ہوا ہے خواہ وہ چیز ہزارہا سال بعد کیوں نہ پیدا ہو - سوم : اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے۔ اگر وہ چاہے تو مخلوق سے خلاف طبع کام بھی کرا سکتا ہے۔ چہارم : اللہ نے انسان کو ایسی طاقتیں دے رکھی ہیں کہ اگر ان کو استعمال کیا جائے تو ترقی پذیر ہوئی ہیں اور اگر مہمل چھوڑی جائیں تو بیکار بلکہ قریب زوال بھی ہوجاتی ہیں۔ پنجم : کسی شخص کی نسبت قیافہ شناسی یا کسی اور وجہ سے پیشگوئی کرنا اس کو مجبور نہیں کرنا۔ ششم : انسان کو اللہ نے کسی قسم کی تمیز اور قدرت ضرور دے رکھی ہے جس کی وجہ سے وہ دیگر حیوانات سے ممتاز ہو کر اشرف المخلوقات ہوا۔ ہفتم : کسی بیمار صاحب الفراش کا کسی برے کام میں چل کر شریک نہ ہونا اس کی مدح کا باعث نہیں ہوسکتا۔ پسؔ اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ انسان جو قوانین الٰہی بلکہ قوانین شاہی کا بھی مکلف ہوتا ہے اسے ان احکام کے ادا کرنے کی طاقت بھی ہے یا نہیں۔ بیشک بموجب اصول ششم ہے مگر خانہ زاد نہیں کسی کی دی ہوئی ہے اور وہ طاقت بموجب اصول چہارم اس قابل ہے کہ اسے کام میں نہ لایا جائے تو بیشک تنزل پذیر ہوتی ہے بلکہ اگر ایک مدت تک مہمل ہی رہے تو قریب فنا بھی ہوجاتی ہے۔ اس امر کی وضاحت کے لئے ہم چوروں اور ڈاکوئوں کا حال تمثیلاً بتلاتے ہیں کہ زمانہ ابتدا میں ان کو بڑے بڑے کام کرنے کی جرأت نہیں ہوتی اس لئے کہ ان کے دل میں اس کام کے عیوب نمایاں اور اس کی پاداش کا ڈر ہوتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ وہ ایک حد تک پہونچ کر ایسے ہوجاتے ہیں کہ بے کس۔ مظلوم۔ یتیم۔ بیوہ عورتوں کا مال بھی اگر ملے تو نہیں چھوڑتے۔ وجہ اس کی بغیر اس کے کیا ہے کہ انہوں نے اللہ کی عطاء کردہ طاقت سے کام نہیں لیا۔ جو آخر کار رفتہ رفتہ ایسی ہوگئی کہ گویا معدوم ہے مگر دراصل معدوم نہیں بلکہ مغلوب ہے۔ اسی مغلوبیت کو اس آیت میں ختم اللّٰہ کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ بموجب اصول سوم اگر اللہ چاہے تو ان کو بھی ہدایت کر دے اور ان کو ان کی بے جا حرکتوں سے جو مثل طبعی کے ہو رہی ہیں جبراً روک دے۔ انہی معنے کی طرف آیات وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ھُدٰھَا+ وَلَوْ شَآَئَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْا+ وَلَوْ شَآئَ رَبُّکَ مَآ اَشْرَکُوْا وغیرہ میں ارشاد فرمایا اور اگر انسان اپنی مغلوب طاقت سے کچھ کام لینا چاہے تو اللہ تعالیٰ بھی بموجب اصول چہارم اس پر نظر رحمت کرتا ہے۔ وَیَھْدِیْٓ! اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ یہی بتلا رہا ہے اور اگر توجہ ہی نہ ہو تو مطابق اسی اصول مذکور کی دن بدن حالت ردی اور ابتر ہوتی جاتی ہے ذٰلِکَّ" بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ اور فَلَمَّا زَاغُوْآ اَزَاغ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ اسی مطلب کو واضح کرتی ہیں۔ رہایہؔ سوال کہ انسان کا قصد کون پیدا کرتا ہے۔ سو اس کا جواب بموجب اصول ششم یہ ہے کہ اللہ نے جو انسان کو تمیز دے رکھی ہے اسی تمیز اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ کو انسان ایک طرف اپنے اختیار سے لگا لیتا ہے اسی کا نام قصد ہے۔ اگر کہا جاوے کہ اللہ اس کے بد ارادوں کو روکتا کیوں نہیں تو اس کا جواب بموجب اصول ہفتم یہ ہے کہ اس صورت میں انسان کسی مدح کا مستحق نہیں ہوسکتا بلکہ ” عصمت بی بی ست از بے چادری“ کا مصداق۔ علاوہ اس کے اگر اللہ انسان کو بد ارادوں سے جبراً روک دے تو ایمان بالجبر کس کا نام ہے یہی تو محل نزاع ہے۔ اگر یہ سوال ہو کہ انسان کے دل میں ایسے خیالات جن کو وہ اپنے اختیار اللہ سے قصد اور ارادہ تک پہونچاتا ہے کون ڈالتا ہے انسان کا تو کام نہیں۔ بسا اوقات ہمیں بلا اختیار جی میں ایسی باتیں آجاتی ہیں جن کا ہمیں وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر قسم کے خیالات اللہ ہی ڈالتا ہے۔ اَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا اس کا مثبت ہے مگر اتنی ہی حد تک جو اس کے بس میں نہیں۔ انسان پر کوئی عذاب بھی نہیں۔ بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس حد تک نیک خیال پر اجر بھی ملتا ہے ہاں جب اس سے بڑھ کر انسان اس خیال کو قصد تک پہونچاتا ہے تو پھر وہی حال ہوتا ہے۔ جو ہونا چاہیے۔ اگر سوال کیا جائے کہ اس حدیث کے اور اس کی ہم معنے آیتوں کے کیا معنے ہوں گے؟ جن میں صاف آیا ہے۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا کہ خواہ خصی ہوجائو یا نہ ہوجائو جو زنا تمہاری قسمت میں لکھا ہوگا وہ تم سے ہو کر ہی رہے گا۔ اس سے تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان خواہ کتنے ہی انتظام کرے گناہ مقدر سے بچ نہیں سکتا۔ تو اس کا جواب بموجب اصول دوم و پنجم یہ ہے کہ بیشک ایسا ہی ہوتا ہے مگر ایسا ہونا انسان کو مجبور نہیں بناتا بلکہ یہ تو با اختیار بناتا ہے۔ ہاں اس سے اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت اور حقانیت ضرور ثابت ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بادشاہ اپنے نوکر کو حکم کرے کہ کل صبح چھ بجے میرے پاس حاضر ہوجیؤ۔ اتفاق سے بادشاہ اس وقت اپنے مقام معہود پر نہ تھا۔ نوکر نہ اس خیال سے کہ بادشاہ وہاں نہیں ہے بلکہ اس کی موجودگی کے علم پر بھی نہ آیا تو کیا وقت مواخذہ نوکر کا یہ عذر ہوسکتا ہے؟ کہ آپ اس وقت دربار میں نہ تھے۔ اس لئے میں نہ آیا۔ اگر کہے تو بادشاہ اس کا جواب یوں دے گا کہ گو میں اپنے دربار میں نہ تھا لیکن تم نے تو غیر حاضری اپنے قصد سے کی تھی پس اس کی سزا تم کو ملے گی۔ اسی طرح انسان بھی جو کچھ کرتا ہے اس کے مقدر میں ہوتا ہے مگر کرتا تو اپنے اختیار سے ہے اس سے اختیار ثابت ہوتا ہے نہ جبر۔ اسی کے مطابق ارشاد وارد ہے وَلَقَدْ#ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا۔ اگر یہ سوال ہو کہ اس آیت مَنْ یَّھْدِی۔ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُتْہَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا کے کیا معنے ہوں گے؟ اس سے تو صاف ثابت ہے کہ بجز اللہ تعالیٰ کی ہدایت اگر ہم چاہتے تو سب کو ہدایت کردیتے۔ ! اللہ اپنی طرف ہدایت کرتا ہے جو اس کی طرف جھکتا ہے۔ " کیونکہ انہوں نے سرکشی کی۔ جب وہ ٹیڑھے رہے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے۔ # اللہ نے بہت سی مخلوق جہنم کے لئے بنائی ہے۔ ۔ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت کرے وہی راہ یاب ہے اور جس کو گمراہ کرے تو اس کا کوئی حمائتی نہ ہادی ہوگا۔ سے کوئی بھی ہدایت نہیں پا سکتا۔ اور جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی بھی ہدایت نہیں کرسکتا۔ معلوم ہوا کہ سب کچھ اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے تو اس کا جواب بموجب اصول اوّل یہ ہے کہ جو چیز دنیا میں پیدا ہوتی ہے خواہ وہ جوہر ہو یا عرض۔ بغیر مشیت اور ارادہ الٰہی کے ہرگز نہیں ہوسکتی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ہدایت اور ضلالت بھی دنیا میں اعراض سے ہیں تو پس ان کے وجود کی بابت اگر یوں ارشاد ہو کہ بدون ہماری مشیت اور ارادہ کے نہیں ہوسکتے جیسے اور چیزیں تو اس میں کیا موقع اعتراض یا اشتباہ ہے؟ پس اس آیت کریمہ کے معنے بالکل روشن اور واضح یوں ہوئے کہ گو تم اپنے ارادہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی طرف متوجہ ہو لیکن جس کی ہدایت کو ہم ہی پیدا کریں اور وجود دیں وہی ہدایت پر آسکتا ہے اسی طرح جو شخص اپنے ارادے سے گمراہی کی طرف جھکے اور اللہ کی طرف سے اس کی گمراہی وجود پذیر بھی ہوجائے تو پھر کوئی نہیں جو اس کو ہدایت دے سکے اس لئے کہ بجز ذات پاک کوئی دوسرا خالق ہی نہیں جو ضلالت موجود کو فنا کر کے ہدایت پیدا کردے۔ یہ امر بالکل واضح ہے۔ رہا یہ سوال کہ ایسی آیتیں ہی کیوں نازل فرمائیں؟ جن سے کہیں تو گمراہی کو شیطان وغیرہ کی طرف نسبت کیا اور کہیں اپنی طرف کیا جس سے کئی قسم کی غلط گمانیاں پیدا ہوگئی۔ ایکؔ تو یہ کہ گمراہ کرنے والا اللہ کو سمجھ گئے۔ دومؔ یہ کہ اس میں شیطان کو بھی اللہ جیسا اختیار ثابت ہوا حالانکہ بحیثیت تعلیم اسلامی یہ دونوں خیال غلط ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں کہیں گمراہی کو اپنی طرف نسبت کیا ہے اس سے تو مجوسیوں اور مشرکوں کو تغلیط کرنی منظور ہے جو اس بات کے قائل تھے کہ دنیا میں خیر جس میں ہدایت بھی داخل ہے ایک اللہ پیدا کرتا ہے اور شر جو گمراہی کو بھی شامل ہے دوسرا اللہ بناتا ہے اس لئے وہ دو الہٰوں اھرمنؔ اور یزدانؔ کے قائل تھے چونکہ یہ عقیدہ جیسا کہ سب انبیاء کی تعلیم کے خلاف تھا ویسا ہی عقل سلیم کے بھی مخالف تھا اس لئے قرآن کریم نے اس باطل عقیدہ کے رد کرنے کو صاف اور صریح الفاظ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ کی منادی کرا دی۔ ہدایت اور اضلال کے معنے اس سے پہلے ہم بتلا آئے ہیں اور جہاں کہیں شیطان وغیرہ کی طرف نسبت کیا ہے وہ حسب محاورہ سبب کی طرف ہے نہ کہ اصلی فاعل کی طرف جیسے کہ انبت الربیع البقلَ (موسم نے بہار لگا دی) بولا کرتے ہیں۔ اب ہم بتلانا چاہتے ہیں کہ قرآن کریم نے اس امر کی تکذیب بھی کی ہے کہ انسان کو بالکل بیکار کاٹھ کی پتلی مثل حجر شجر کے مانا جائے۔ کفار نے یہ سن کر کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے ارادے سے ہوتا ہے اپنی پاکدامنی پر اس سے حجت پکڑی وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکْنَا نَحْنُ وَلَآ اٰبَآئُ نَا زبان پر لائے۔ چونکہ یہ بے سمجھی کی بات تھی نیز ایک کافر فاسق کو ایک قسم کا بہانہ تھا اسی لئے اس کے جواب میں وہ الفاظ استعمال کئے جن سے سخت اور نہ ملیں کَذٰلِکَ ! کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کہہ کر اس نافہمی پر ناراضگی ظاہر فرمائی۔ پس اگر قرآن کریم کی تعلیم کا یہی منشا ہوتا کہ انسان اپنے افعال میں اپنے ارادے میں اپنی حرکات میں مثل جمادات کے ہے تو اس کا ایسے شدو مد سے رد نہ فرماتے بلکہ موقع غنیمت سمجھ کر کہ ہمارے ہم خیال ہوئے جاتے ہیں اس کی تائید کرتے۔ رہا یہ سوال کہ اللہ نے ایسا کیوں نہ کیا کہ سب مخلوق نجات پاتی؟ دنیا میں جس قدر مذاہب مختلف ہیں یقینا بعض ان میں سے غلطی پر ہیں پھر ان کی نجات کا بھی تو کوئی ذریعہ ہونا چاہئے تھا۔ آخر وہ بھی تو اسی کی مخلوق ہیں۔ مانا کہ اللہ نے ہدایت کی راہ سب کو دکھائی اور جیسا کہ ثابت ہوا انسان اپنے ہی ارادہ سے غلطی کرتا ہے مگر کوئی صورت ایسی کیوں نہ کی کہ سب کے سب مدامی عیش میں رہتے؟ اس کا جواب علاوہ اصول سابقہ کے اور دو اصول پر مبنی ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو ہم نہ ہمارے باپ دادا شرک کرتے۔ ! اسی طرح پہلے لوگوں نے جھٹلایا تھا۔