سورة الانعام - آیت 136

وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اللہ نے جو کھیتیاں اور چوپائے پیدا کیے ہیں ِ ان لوگوں نے ان میں سے اللہ کا بس ایک حصہ مقرر کیا ہے۔ (٦٦) چنانچہ بزعم خود یوں کہتے ہیں کہ یہ حصہ تو اللہ کا ہے، اور یہ ہمارے ان معبودوں کا ہے جن کو ہم خدائی میں اللہ کا شریک مانتے ہیں۔ پھر جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے، وہ تو (کبھی) اللہ کے پاس نہیں پہنچتا، اور جو حصہ اللہ کا ہوتا ہے، وہ ان کے گھڑے ہوئے معبودوں کو پہنچ جاتا ہے۔ ایسی بری بری باتیں ہیں جو انہوں نے طے کر رکھی ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے مشرکین کی بیوقوفی، کم عقلی اور انتہا کو پہنچی ہوئی جہالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔ چنانچہ ان کی متعدد خرافات کا ذکر کیا ہے تاکہ وہ ان کی گمراہی پر متنبہ کر کے اہل ایمان کو ان سے بچائے اور ان بیوقوفوں کا اس حق کی مخالفت کرنا، جسے انبیا و رسل لے کر مبعوث ہوئے ہیں، حق میں نقص کا باعث نہیں۔ کیونکہ وہ حق کا مقابلہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی جہالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَجَعَلُوا لِلَّـهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا﴾ ” اور (یہ لوگ) اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں یعنی کھیتی اور چوپایوں میں اللہ کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو مویشی اور کھیتی پیدا کی ہے وہ اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ بھی مقرر کرتے ہیں اور ایک حصہ اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے مقرر کرتے ہیں۔ درآں حالیکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو پیدا کر کے بندوں کے لئے رزق فراہم کیا ہے۔ انہوں نے دو محظور امور بلکہ تین کو یکجا کردیا جن سے بچنے کے لئے ان کو کہا گیا تھا۔ (ا) اللہ تعالیٰ پر ان کا احسان دھرنا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا حصہ مقرر کیا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر نوازش ہے۔ (ب) اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو مویشیوں اور کھیتیوں کی پیداوار میں شریک کرنا حالانکہ وہ ان میں سے کسی چیز کو وجود میں نہیں لائے۔ (ج) اور ظلم وجور پر مبنی ان کا فیصلہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حصے کی کوئی پروا نہیں کرتے، اگرچہ یہ حصہ اپنے شریکوں کے حصے کے ساتھ ملا دیں اور اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے حصے کو درخوا اعتناء سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کے حصے کے ساتھ نہیں ملاتے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب مشرکین کو کھیتوں اور پھلوں کی پیداوار اور مویشی حاصل ہوتے، جن کو اللہ تعالیٰ ان کے لئے وجود میں لایا، تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کردیتے۔ (١) ایک حصے کے بارے میں بزعم خود کہتے ” یہ اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے۔“ حالانکہ اللہ تعالیٰ اسی چیز کو قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کی رضا کے لئے ہو۔ اللہ تعالیٰ شرک کرنے والے کے عمل کو قبول نہیں فرماتا۔ (٢) دوسرا حصہ اپنے ٹھہرائے ہوئے معبودوں اور بتوں کی نذر کرتے تھے، اگر کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے حصے میں سے نکل کر اس حصے میں خلط ملط ہوجاتی جو غیر اللہ کے لئے مقرر کیا تھا تو اس کی پروا نہیں کرتے تھے اور اس کو اللہ تعالیٰ کے حصہ کی طرف نہیں لوٹاتے تھے اور کہتے تھے ” اللہ اس سے بے نیاز ہے“ اور اگر کوئی چیز، جو انہوں نے اپنے معبودوں اور بتوں کے لئے مقرر کی تھی اس حصے کے ساتھ خلط ملط ہو جاتی جو اللہ تعالیٰ کے لیے مقرر کیا تھا، تو اسے بتوں کے لیے مقرر حصے کی طرف لوٹا دیتے اور کہتے ” یہ بت تو محتاج ہیں اس لئے ان کے حصے کو ان کی طرف لوٹانا ضروری ہے۔“۔۔۔ کیا اس سے بڑھ کر ظلم پر مبنی، بدترین فیصلہ کوئی اور ہوسکتا ہے؟ کیونکہ انہوں نے جو حصہ مخلوق کے لئے مقرر کیا ہے اس کی اللہ تعالیٰ کے حق سے زیادہ خیر خواہی اور حفاظت کرتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں اس معنی کا احتمال بھی ہوسکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” میں تمام شریکوں سے بڑھ کر شرک سے بے نیاز ہوں۔ جو کوئی میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔۔ الحدیث“ [صحیح مسلم، کتاب الزھد، باب تحریم الرباء، حدیث :2985 ] آیت کریمہ کے معنی یہ ہیں کہ مشرکین نے اپنے معبودوں اور بتوں کے تقرب کے حصول کے لئے جو حصے مقرر کر رکھے ہیں وہ خالص غیر اللہ کے لئے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں اور ان کے زعم باطل کے مطابق انہوں نے جو حصہ اللہ تعالیٰ کے لئے مقرر کیا ہے وہ ان کے شرک کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے حضور نہیں پہنچتا، بلکہ یہ بھی ان کے معبودوں اور بتوں کا حصہ ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔ وہ مخلوق میں سے اس شخص کا عمل کبھی قبول نہیں کرتا جو اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے خسران اور ان کی کم عقلی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ” بے شک خسارے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے بغیر علم کے اپنی اولاد کو قتل کیا“ یعنی وہ اپنے دین، اولاد اور عقل کے بارے میں خسارے میں رہے۔ پختہ رائے اور عقل کے بعد ہلاکت انگیز حماقت اور ضلالت ان کا وصف ٹھہری ﴿وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّـهُ ﴾” اور حرام ٹھہرایا اس رزق کو جو اللہ نے ان کو دیا“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو ان کے لئے رحمت بنایا اور اسے ان کے لئے رزق قرار دیا تھا۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو ٹھکرا دیا، پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اس نعمت کو حرام سے موصوف کیا۔ حالانکہ یہ نعمت ان کے لئے سب سے زیادہ حلال تھی اور یہ سب کچھ ﴿ افْتِرَاءً عَلَى اللَّـهِ ﴾ ” جھوٹ باندھ کر اللہ پر“ یعنی یہ سب کچھ جھوٹ ہے اور ہر عناد پسند کافر جھوٹ گھڑتا ہے ﴿قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ﴾ ” وہ بے شبہ گمراہ ہیں اور ہدایت یافتہ نہیں ہیں۔“ یعنی وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑے اور وہ اپنے تمام امور میں سے کسی چیز میں بھی راہ راست پر نہیں ہیں۔