سورة النسآء - آیت 151

أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تو ایسے لوگ یقینا کافر ہیں (ان کا بعض رسالتوں پر ایمان رکھنے کا دعوی انہیں مومن نہیں بنا دے سکتا) اور کافروں کے لیے ہم نے ذلت دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اسی طرح جو کوئی کسی رسول کا انکار کرتا ہے وہ تمام رسولوں کا انکار کرتا ہے بلکہ وہ اس رسول کا بھی انکار کرتا ہے جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس پر ایمان لایا ہے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ﴾ ” وہ بلاشبہ کافر ہیں پکے۔“ اور (حقا) کا لفظ اس لئے استعملا کیا ہے تاکہ کوئی اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ ان کا متربہ ایمان اور کفر کے درمیان ہے اور ان کے کافر ہونے کی۔۔۔ یہاں تک کہ اس رسول کے ساتھ بھی کفر کرنے کی، جس پر وہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔۔۔ وجہ یہ ہے کہ ہر وہ دلیل جو اس نبی پر ایمان لانے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے، وہی دلیل یا اس جیسی یا اس سے بڑھ کر دلیل موجود ہے جو اس نبی کی نبوت پر دلالت کرتی ہے جس کا وہ انکار کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہر وہ شبہ جس کی بنیاد پر وہ اس نبی پر اعتراض کرتے ہیں جس کے ساتھ انہوں نے کفر کیا ہے، وہی شبہ، یا اس جیسا یا اس سے بھ بڑا شبہ اس نبی کی نبوت میں بھی موجود ہے جس پر وہ ایمان لائے ہیں۔۔۔ تب اس کے بعد سوائے، خواہشات نفس اور مجرد دعویٰ کے کچھ باقی نہیں جس کے مقابلہ میں اس جیسا دعویٰ کرنا ہر ایک کے لئے ممکن ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ یہی لوگ حقیقی (پکے) کافر ہیں تو اس عذاب کا ذکر بھی فرما دیا جو ان کو اور دیگر کفار کو دیا جائے گا۔﴿وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴾ اور ہم نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ جس طرح انہوں نے تکبر کی بنا پر ایمان لانے سے انکار کردیا اسی طرح اللہ تعالیٰ رسوا کن اور درد ناک عذاب کے ذریعے سے ان کو رسوا کرے گا۔