سورة الفاتحة - آیت 5

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(خدایا !) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تو ہی ہے جس سے (اپنی ساری احتیاجوں میں) مدد مانگتے ہین

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ ” ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں“ یعنی تجھ اکیلے ہی کو ہم عبادت اور استعانت کے لئے مخصوص کرتے ہیں کیونکہ (نحوی قاعدے کے مطابق) معمول کا اپنے عامل سے پہلے آنا حصر کے معنی پیدا کرتا ہے اور حصر سے مراد صرف مذکور کے لئے حکم کا اثبات اور اس کے سوا کسی اور کے لئے اس حکم کی نفی کرنا ہے۔ گویا بندہ کہتا ہے : ” ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تیرے سوا کسی سے مدد کے طلب گار نہیں ہوتے۔ “ عبادت کو استعانت پر مقدم کرنا عام کو خاص پر مقدم کرنے کی نوع میں سے ہے نیز اللہ تعالیٰ کے حق کو گندے کے حق کو بندے کے حق پر مقدم کرنے کا اہتمام ہے۔” عبادت“ ایک ایسا اسم ہے جو ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال و اقوال کا جامع ہے جن کو اللہ پسند کرتا ہے اور جن سے وہ راضی ہوتا ہے۔ (اِسْتِعَانَۃ) کا مطلب، جلب منفعت اور دفع ضرر کے حصول میں پورے وثوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ کرنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے قیام، منافع کے حصول اور نقصان کے ازالے میں صرف اسی سے مدد کا طلبگار ہونا ابدی سعادت کا وسیلہ اور تمام برائیوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔ پس نجات کا راستہ یہی ہے کہ عبادت بھی صرف ایک اللہ کی کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے۔ اور عبادت اس وقت تک عبادت نہیں جب تک کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل نہ کیا گیا ہو اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا نہ ہو۔ ان دو امور کے وجود سے عبادت متحقق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” استعانت“ کو ” عبادت“ کے بعد ذکر کیا ہے حالانکہ استعانت عبادت میں داخل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ اپنی تمام عبادات میں اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد نہ فرمائے تو بندہ اللہ تعالیٰ کے او امر پر عمل اور اس کی منہیات سے اجتناب نہیں کرسکتا۔