سورة آل عمران - آیت 186

لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مسلمانو) تمہیں اپنے مال و دولت اور جانوں کے معاملے میں (اور) آزمایا جائے گا، اور تم اہل کتاب اور مشرکین دونوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اور اگر تم نے صبر اور تقوی سے کام لیا تو یقینا یہی کام بڑی ہمت کے ہیں ( جو تمہیں اختیار کرنے ہیں)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ انہیں ان کے اموال میں اللہ کی راہ میں واجب اور مستحب نفقات کے ذریعے سے آزمایا جائے گا اور خو دان کو ایسی بوجھل تکالیف میں مبتلا کیا جائے گا جو اکثر لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں مثلاً جہاد فی سبیل اللہ، جہاد میں مشقت، قتل، اسیری اور زخموں سے واسطہ پڑتا ہے اور مثلاً امراض جو خود اسے یا اس کے کسی محبوب فرد کو لاحق ہوجاتے ہیں۔ ﴿وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا﴾یعنی تمہیں اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے خود تمہاری ذات، تمہارے دین، تمہاری کتاب اور تمہارے رسول کے بارے میں طعنے سننے پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان امور کے بارے میں اپنے مومن بندوں کو آگاہ کرنے میں متعدد فوائد ہیں۔ ١۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت اس کا تقاضا کرتی ہے تاکہ مومن صادق اور دیگر لوگوں کے درمیان امتیاز واقع ہوجائے۔ ٢۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو وہ ان کے لیے شدائد اور تکالیف کو مقدر کردیتا ہے تاکہ وہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی برائیوں کو مٹا دے اور تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو اور ان کے ایقان کی تکمیل ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں آگاہ فرمایا اور وہ اسی طرح واقع بھی ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ ﴿ قَالُوا هَـٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ﴾ (الاحزاب :33؍ 22) ” تو کہنے لگے یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہمارے ساتھ وعدہ فرمایا تھا۔ اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا اس سے ان کے ایمان میں اضافہ اور تسلیم و رضا زیادہ ہوگئی۔ “ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس کی خبر دی تاکہ ان کے نفوس اس قسم کے شدائد برداشت کرنے کے لیے آمادہ ہوں اور جب سختیاں آن پڑیں تو ان پر صبر کریں۔ کیونکہ جب شدائد کا مقابلہ کرنے کے لیے صبر تیار ہوں گے تو ان کا برداشت کرنا ان کے لیے آسان ہوجائے گا اور ان کا بوجھ ہلکا لگے گا، تب وہ صبر اور تقویٰ کی پناہ لیں گے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا  ﴾ یعنی تمہاری جان و مال میں تم جس ابتلاء و امتحان میں پڑے ہوئے ہو اور تمہیں ظالموں کی اذیتوں کا جو سامنا کرنا پڑا ہے اگر تم اس پر صبر کرو اور اس صبر میں تقویٰ کا التزام یعنی اس صبر میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے تقرب کی نیت رکھو اور اپنے صبر میں صبر کی شرعی حدود سے تجاوز نہ کرو یعنی ایسے مقام پر صبر نہ کرو جہاں صبر کرنا جائز نہ ہو بلکہ وہاں تمہارا کام اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے انتقام لینا ہو ﴿ فَإِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ  ﴾ تو اس کا شمار ایسے امور میں ہوتا ہے جس پر عزم کیا جاتا ہے اور جس میں رغبت کے لیے سبقت کی جاتی ہے اور اس کی توفیق صرف انہیں عطا ہوتی ہے جو باعزم اور بلند ہمت لوگ ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾ (فصلت :41؍ 35) ” یہ بات صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور اس بات سے صرف وہ لوگ بہرہ ور ہوتے ہیں جو نصیب والے ہیں۔ “