سورة البقرة - آیت 32

قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

فرشتوں نے عرض کیا" خدایا ساری پاکیاں اور بڑائیاں تیری ہی لیے ہیں۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھلا دیا ہے۔ علم تیرا علم ہے اور حکمت تیری حکمت

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿قَالُوا سُبْحَانَكَ﴾ فرشتوں نے جواب دیا کہ ہم نے تجھ پر جو اعتراض کیا تھا اور تیرے حکم کی مخالفت کا ارتکاب کر بیٹھے۔ اس سے تجھے منزہ اور پاک تسلیم کرتے ہیں۔ ﴿ لَا عِلْمَ لَنَا﴾یعنی ہمیں کسی بھی پہلو سے کوئی علم نہیں ﴿ إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا﴾سوائے اس علم کے جو تو نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں عطا کیا ہے۔ ﴿إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴾( اَلْعَلِيمُ )اس ہستی کو کہا جاتا ہے، جس نے اپنے علم کے ذریعے سے ہر چیز کا احاطہ کررکھا ہو۔ اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہ ہو آسمانوں اور زمین میں کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہ ہو، اس ذرے سے بڑی یا اس سے چھوٹی کوئی چیز بھی اس سے چھپی ہوئی نہ ہو۔ (اَلْحَکِیْم) اس ہستی کو کہا جاتا ہے جو کامل حکمت کی مالک ہو۔ کوئی مخلوق اس کی حکمت سے باہر نہ ہو اور کوئی مامور اس حکمت سے علیحدہ نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز ایسی پیدا نہیں کی جس میں کوئی حکمت نہ ہو اور نہ کوئی ایسا حکم دیا ہے جو حکمت سے خالی ہو۔ حکمت سے مراد ہے کسی چیز کو اس کے اس مقام پر رکھنا جو اس کے لائق ہے۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی حکومت اور علم کا اقرار اور اعتراف کیا اور اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ وہ ایک ادنیٰ سی چیز کی معرفت سے بھی قاصر تھے۔ انہوں نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور انہیں وہ کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتے تھے۔