سورة آل عمران - آیت 73

وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّهِ أَن يُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَاجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْ ۗ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مگر دل سے ان لوگوں کے سوا کسی کی نہ ماننا جو تمہارے دین کے متبع ہیں۔ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ ہدایت تو وہی ہدایت ہے جو اللہ کی دی ہوئی ہو، یہ ساری باتیں تم اس ضد میں کر رہے ہو کہ کسی کو اس جیسی چیز (یعنی نبوت اور آسمانی کتاب) کیوں مل گئی جیسی کبھی تمہیں دی گئی تھی یا یہ ( مسلمان) تمہارے رب کے آگے تم پر غالب کیوں آگئے۔ آپ کہہ دیجیے کہ فضیلت تمام تر اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا ہے، ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَ﴾” اور“ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔﴿ لَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ﴾” سوائے تمہارے دین پر چلنے والوں کے اور کسی کا یقین نہ کرو“۔ یعنی تم صرف اپنے ہم مذہب افراد پر اعتماد کرنا، دوسروں سے اس بات کو چھپا کر رکھنا۔ اگر تم نے دوسرے مذہب والوں کو بتا دیا تو جو علم تمہیں حاصل ہے انہیں بھی حاصل ہوجائے گا تو وہ تمہارے جیسے ہوجائیں گے یا قیامت کے دن تم سے بحث کریں گے اور رب کے پاس تمہارے خلاف گواہی دیں گے کہ تم پر حجت قائم ہوچکی تھی اور تمہیں ہدایت معلوم ہوچکی تھی، لیکن تم نے اس کی اتباع نہیں کی۔ خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ سمجھا کہ اگر ہم مومنوں کو نہیں بتائیں گے تو انہیں اس سازش کا بالکل علم نہیں ہوسکے گا کیونکہ ان کے خیال میں علم صرف انہی کے پاس ہوسکتا ہے جس سے ان پر حجت قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:﴿إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّـهِ﴾” بے شک ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے“ لہٰذا ہر ہدایت یافتہ کو ہدایت اللہ ہی سے ملتی ہے۔ علم میں یا تو حق کو جاننا شامل ہے یا اسے اختیار کرنا۔ علم صرف وہی ہے جو اللہ کے رسول لائے ہیں اور توفیق صرف اللہ کی طرف سے ملتی ہے۔ اہل کتاب کو علم بہت کم ملا ہے اور توفیق سے وہ بالکل محروم ہیں کیونکہ ان کی نیتیں اور ارادے غلط ہیں۔ اس کے برعکس اس امت کو اللہ کی ہدایت کی وجہ سے علوم و معارف بھی حاصل ہوئے ہیں اور ان پر عمل کی توفیق بھی۔ اس وجہ سے وہ دوسروں سے افضل ہوگئے، لہٰذا وہی رہنما قرار پائے جو اللہ کے حکم کے مطابق ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ یہ امت پر اللہ کا عظیم فضل و احسان ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا :﴿ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّـهِ ﴾کہہ دیجئے، فضل تو اللہ ہی کی ہاتھ میں ہے”وہی اپنے بندوں پر ہر قسم کا احسان فرماتا ہے۔ “﴿ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ﴾”وہ جسے چاہے اسے دے“ جو اس کے اسباب اختیار کرے گا، اللہ اس کو اپنا فضل دے گا،﴿ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾” اور اللہ وسعت والاعلم والا ہے“ اس کا فضل و احسان بہت وسیع ہے۔ وہ جانتا ہے کون احسان کے قابل ہے، اسے وہ عطا فرماتا ہے اور کون اس کا مستحق نہیں، چنانچہ اسے محروم رکھتا ہے