سورة آل عمران - آیت 61

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تمہارے پاس ( حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے کا) جو صحیح علم آگیا ہے اس کے بعد بھی جو لوگ اس معاملے میں تم سے بحث کریں تو ان سے کہہ دو کہ :“ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو، اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنے لوگوں کو اور تم اپنے لوگوں کو، پھر ہم سب ملکر اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں، اور جو جھوٹے ہوں ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ (٢٥)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

آیات کا مطلب یہ ہے ﴿فَمَنْ حَاجَّكَ﴾ کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو شخص عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آپ سے بحث کرتا ہے اور انہیں ان کے اصل مقام سے بڑھاتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان کا مقام عبودیت کے مقام سے بلند تر ہے۔ حالانکہ﴿مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ﴾ آپ کے پاس یقینی علم آچکا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور آپ نے ایسے شخص کے لئے دلائل کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندے ہیں تو ثابت ہوجاتا ہے کہ آپ کی اتباع کرکے ایسے یقینی علم کو نہ ماننے والا عناد میں مبتلا ہے، لہٰذا اس سے بحث و مباحثہ کرنے میں نہ آپ کو کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے، نہ اس کو۔ کیونکہ حق واضح ہوچکا ہے، لہٰذا اس کی بحث محض اللہ اور رسول کی مخالفت اور ضد کی بنا پر ہے۔ اس کا مقصد اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے چلنا ہے، حق کی اتباع نہیں۔ ایسے شخص کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ اس سے مباہلہ اور ملاعنہ کریں۔ یعنی دونوں فریق اللہ کے سامنے عجز ونیاز کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے فریق پر اپنی لعنت اور عذاب نازل کرے۔ اس میں فریقین خود بھی اور ان کے سب سے پیارے افراد یعنی بیویاں اور اولاد وغیرہ بھی شریک ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی دعوت دی تو انہوں نے یہ چیلنج قبول کرنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر مباہلہ کیا تو انہیں فوری سزا ملے گی اور ان کے اہل و عیال ہلاک ہوجائیں گے۔ وہ اپنے دین پر قائم رہے حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ باطل ہے۔ یہ انتہائی درجے کا عناد اور فساد ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا : ﴿فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ﴾’’پھر بھی اگر قبول نہ کریں تو اللہ ہی صحیح طور پر فسادیوں کو جاننے والا ہے“ وہ انہیں سخت ترین سزا دے گا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا