سورة آل عمران - آیت 23

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو لوگ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں اور اس کے نبیوں کے ناحق قتل میں چھوٹ ہیں۔ نیز ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو حق و عدالت کا حکم دینے والے ہیں تو (ایسے خوش اعمال لوگوں کے لیے اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ) انہیں دردناک عذاب کی خوش خبری پہنچا دو

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ اہل کتاب کی حالت بیان فرما رہا ہے جن پر انعام کرتے ہوئے اللہ نے انہیں اپنی کتاب دی۔ ان کا فرض تھا کہ سب سے زیادہ وہ اس پر قائم رہتے اور سب سے پہلے وہ اس کے احکام کو تسلیم کرتے، لیکن اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں بتا رہا ہے کہ انہیں جب کتاب کے فیصلے (کو قبول کرنے) کی طرف بلایا جاتا ہے تو ان میں سے کچھ لوگ منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں۔ اپنے بدنوں کے ساتھ بھی منہ پھیرتے ہیں اور دلوں کے ساتھ بھی انکار کرتے ہیں۔ یہ انتہائی قابل مذمت رویہ ہے۔ اس میں ہمارے لئے تنبیہ ہے کہ ان جیسا کام نہ کریں، ورنہ ہم بھی اس مذمت کے مستحق ہوں گے اور ہمیں بھی ان جیسی سزا مل سکتی ہے۔ بلکہ جس کو اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جائے اس کا فرض ہے کہ سنے، اطاعت کرے، اور دل سے تسلیم کرے، جیسے اللہ نے فرمایا ﴿ إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ ﴾ (النور : 24؍ 51) ” مومنوں کو جب اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے، تو وہ صرف یہی کہتے ہیں : ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا“ اہل کتاب کو جو دھوکا لگا ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ کی نافرمانی کی جرأت کرتے ہیں،