سورة البقرة - آیت 140

أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ ۗ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جس کے پاس اللہ کی ایک گواہی موجود ہو اور وہ اسے چھپائے؟ (اور محض اپنی بات کی پچ کے لیے سچائی کا اعلان نہ کرے؟) یاد رکھو جو کچھ بھی تم کر رہے ہو، اللہ اس سے غافل نہیں ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ ان کی طرف سے ایک اور دعویٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے بارے میں ایک اور مباحثہ ہے۔ انہوں نے گمان کیا کہ وہ مسلمانوں کی نسبت مذکورہ رسولوں کے زیادہ قریب ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ءَاَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰہُ ﴾ ” کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿َا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا۝٠ۭ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۝٦٧﴾ ” ابراہیم یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ وہ یکسو مسلمان تھے اور مشرکین میں سے بھی نہ تھے۔“ اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام یہودی یا نصرانی تھے۔ اس بارے میں یا تو وہ سچے اور علم سے بہرہ ور ہیں یا اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والا اور سچا ہے ان دو باتوں میں سے لامحالہ صرف ایک ہی بات صحیح ہے۔ جواب کی صورت مبہم ہے مگر جواب درحقیقت بہت واضح ہے حتیٰ کہ جواب میں یہ بھی کہنے کی ضرورت پیش نہ آئی ” بلکہ اللہ تعالیٰ زیادہ علم رکھنے والا اور زیادہ سچا ہے“ کیونکہ یہ جواب ہر شخص پر واضح ہے۔ مثلاً جب یہ کہا جائے کہ رات زیادہ روشن ہے یا دن؟ آگ زیادہ گرم ہے یا پانی؟ اور شرک زیادہ اچھی چیز ہے یا توحید؟ اور اس قسم کا کوئی اور سوال (اس کا جواب اتنا واضح ہے کہ جواب دینے کی ضرورت نہیں رہتی۔) ایک ادنیٰ سی عقل رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے حتیٰ کہ یہ خود بھی جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء یہودی تھے نہ نصرانی، انہوں نے اس علم اور اس گواہی کو چھپانے کے گناہ کا ارتکاب کیا، لہٰذا ان کا ظلم سب سے بڑا ظلم ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ﴾” اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اس شہادت کو چھپائے جو اللہ کی طرف سے اس کے پاس ہے“ پس یہ شہادت جو ان کے پاس تھی، اللہ کی طرف سے ان کے سپرد کی گئی تھی نہ کہ مخلوق کی طرف سے۔ اس لیے اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا ضروری تھا، لیکن انہوں نے اسے چھپایا اور اس کے برعکس باتوں کو ظاہر کیا۔ چنانچہ انہوں نے حق کے چھپانے، اسے بیان نہ کرنے اور اظہار باطل اور اس کی طرف دعوت دینے کو ایک جگہ جمع کردیا۔ کیا یہ سب سے بڑا ظلم نہیں؟ کیوں نہیں اللہ کی قسم ! یہ سب سے بڑا ظلم ہے اس پر انہیں سخت سزا کا سامنا کرناپڑے گا۔ اس لیے اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾”وہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں“ بلکہ اس نے تمہارے اعمال کو شمار کر کے محفوظ کرلیا ہے اور ان کی جزا بھی محفوظ کی ہوئی ہے۔ پس ان کی جزا بہت بری جزا ہے اور بری ہے جہنم کی آگ، جو ظالموں کا ٹھکانا ہے۔ قرآن کریم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان آیات کریمہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کا ذکر کرتا ہے جن میں ان اعمال کا ذکر کیا گیا ہوتا ہے جن پر جزا و سزا مرتب ہوتی ہے پس ان آیات کریمہ کے عقب میں اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کا ذکر کرنا وعدہ و وعید اور ترغیب و ترہیب کا فائدہ دیتا ہے۔ نیز احکام کے عقب میں اسمائے حسنیٰ کا ذکر کرنا اس امر کا فائدہ دیتا ہے کہ امر دینی و جزائی اسمائے حسنیٰ کے آثار اور اس کے موجبات میں سے ہے اوراسمائے حسنیٰ اس امر دینی و جزائی کا تقاضا کرتے ہیں۔