سورة یونس - آیت 71

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) انہیں نوح کا حال سناؤ، جب ایسا ہوا تھا کہ اس نے اپنی قوم سے کہا تھا اے میری قوم اگر تم پر یہ بات شاق گزرتی ہے کہ میں تم میں (دعوت و ہدایت کے لیے) کھڑا ہوں اور اللہ کی نشانیوں کے ساتھ پند و نصیحت کرتا ہوں تو میرا بھروسہ صرف اللہ پر ہے، تم میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو اسے ٹھان لو اور اپنے شریکوں کو بھی ساتھ لے لو، پھر جو کچھ تمہارا منصوب ہو اسے اچھی طرح سمجھ بوجھ لو کہ کوئی پہلو نظر سے رہ نہ جائے پھر جو کچھ میرے خلاف کرنا ہے کر گزرو اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو (اور دیکھو آخر کار کیا نتیجہ نکلتا ہے؟)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور ان کو سنائیے“ یعنی اپنی قوم کے سامنے تلاوت کر دیجئے ﴿ نَبَأَ نُوحٍ﴾ ” نوح کا حال“ یعنی جب نوح علیہ الصلوۃ السلام کی دعوت کا حال، جو انہوں نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی تھی وہ ایک طویل مدت تک ان کو دعوت دیتے رہے۔ پس وہ اپنی قوم کے درمیان نو سو پچاس برس تک رہے مگر ان کی دعوت نے ان کی سرکشی میں اضافہ ہی کیا اور وہ آپ کی دعوت سے اکتا گئے اور سخت تنگ آگئے۔ نوح علیہ السلام نے ان کی دعوت دینے میں کسی سستی کا مظاہرہ کیا نہ کوتاہی کا‘ چنانچہ آپ ان سے کہتے رہے : ﴿يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي﴾ ” اے میری قوم ! اگر بھاری ہوا ہے تم پر میرا کھڑا ہونا اور میرا نصیحت کرنا“ یعنی میرے تمہارے پاس ٹھہرنا اور تمہیں وعظ و نصیحت کرنا جو تمہارے لئے فائدہ مند ہے ﴿ بِآيَاتِ اللَّـهِ﴾ ”اللہ کی آیتوں سے“ یعنی واضح دلائل کے ذریعے سے اور یہ چیز تمہارے لئے بہت بڑی اور تم پر شاق گزرتی ہے اور تم مجھے نقصان پہنچانے یا دعوت حق کو ٹھکرانے کا ارادہ رکھتے ہو۔ ﴿فَعَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْتُ﴾ ” تو میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے“ یعنی اس تمام شر کو دفع کرنے میں جو تم مجھے اور میری قوم کو پہنچانا چاہتے ہو، میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہوں۔ یہی توکل، میرا لشکر اور میرا تمام ساز و سامان ہے اور تم اپنے تمام تر سر و سامان اور تعداد کے ساتھ جو کچھ کرسکتے ہو کرلو ﴿فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ ﴾ ” اب تم سب مل کر مقرر کرو اپنا کام“ تم تمام لوگ اکٹھے ہو کر، کہ تم میں سے کوئی پیچھے نہ رہے، میرے خلاف جدوجہد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔ ﴿وَشُرَكَاءَكُمْ﴾ ” اور جمع کرو اپنے شریکوں کو“ یعنی ان تمام شریکوں کو بلالو، جن کی تم اللہ رب العالمین کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو اور انہیں تم اپنا ولی و مددگار بناتے ہو۔ ﴿ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً﴾ ” پھر نہ رہے تم کو اپنے کام میں اشتباہ“ یعنی اس بارے میں تمہارا معاملہ مشتبہ اور خفیہ نہ ہو، بلکہ تمہارا معاملہ ظاہر اور اعلانیہ ہو۔ ﴿ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ﴾ ” پھر وہ کام میرے حق میں کر گزرو“ یعنی میرے خلاف جو کچھ تمہارے بس میں ہے، سزا اور عقوبت کا فیصلہ سنا دو۔ ﴿وَلَا تُنظِرُونِ ﴾ ” اور مجھے مہلت نہ دو۔“ یعنی تم مجھے دن کی ایک گھڑی کے لئے بھی مہلت نہ دو۔