سورة یونس - آیت 31

قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) ان لوگوں سے پوچھو وہ کون ہے جو تمہیں آسمان و زمین کی بخشائشوں کے ذریعہ روزی دیتا ہے؟ وہ کون ہے جس کے قبضۃ میں تمہارا سننا اور دیکھنا ہے؟ وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے؟ اور پھر وہ کون ہے جو تمام کارخانہ ہستی کا انتظام کر رہا ہے؟ وہ (فورا) بول اٹھیں گے کہ اللہ، پس تم کہو، اگر ایسا ہی ہے تو پھر تم (انکار حق کے نتیجہ سے) ڈرتے نہیں؟

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿قُلْ﴾ یعنی ان کے تو حیدر بوبیت کے اقرار کو ان کے توحید الوہیت کے انکار پر حجت بناتے ہوئے ان مشرکین سے کہہ دیجئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے شرک کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ ﴿مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ﴾ ” کون ہے جو تمہیں روزی دیتا ہے آسمان اور زمین سے“ یعنی آسمان سے رزق نازل کر کے اور زمین سے رزق کی مختلف اقسام کو نکال کر اور اس میں رزق کے اسباب کو آسان بنا کر؟ ﴿أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ ﴾ ” یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا“ یعنی کون ہے جس نے ان دونوں قویٰ کو تخلیق کیا اور وہ ان کا مالک ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خاص طور پر ان دونوں قویٰ کا ذکر فرمایا‘یہ مفضول پر فاضل کی فضیلت پر تنبیہ کے باب سے ہے، نیز ان کے شرف اور فوائد کی بنا پر ان کا ذکر کیا۔ ﴿وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ﴾ ”اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے“ مثلاً شجر و نباتات کی تمام اقسام کو دانے اور گٹھلی سے پیدا کیا، مومن کو کافر سے جنم دیا اور پرندے کو انڈوں سے تخلیق کیا۔ ﴿وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ﴾ ” اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے“ یعنی مذکورہ تمام چیزوں کے برعکس ﴿وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ﴾ ” اور کاموں کا انتظام کون کرتا ہے۔“ یعنی کون ہے جو عالم علوی اور عالم سفلی کی تدبیر کرتا ہے؟ اور اس میں تدابیر الٰہیہ کی تمام اقسام شامل ہیں۔ اگر آپ ان سے اس بارے میں سوال کریں ﴿فَسَيَقُولُونَ اللَّـهُ﴾ ” تو وہ کہیں گے، اللہ“ کیونکہ وہ ان تمام امور کا اقرار کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مذکورہ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿فَقُلْ﴾ تو الزامی حجت کے طور پر ان سے کہہ دیجئے ! ﴿أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴾ ”پھر تم ڈرتے کیوں نہیں۔“ کیا تم اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے کہ خالص اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتے اور جھوٹے معبودوں اور بتوں کی بندگی کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکتے۔