سورة یونس - آیت 21

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا ۚ قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ۚ إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب ایسا ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو درد دکھ کے بعد اپنی رحمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو فورا ہماری (رحمت کی) نشانیوں میں باریک باریک حیلے نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ (اے پیغمبر) تم کہہ دو اللہ ان باریکیوں میں سب سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے تمہاری یہ ساری مکاریاں قلمبند کر رہے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ﴾ ” اور جب چکھائیں ہم لوگوں کو مزا اپنی رحمت کا، ایک تکلیف کے بعد جو ان کو پہنچی تھی“ مثلاً مرض کے بعد صحت، تنگ دستی کے بعد فراخی اور خوف کے بعد امن، تو وہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں کیا تکلیف پہنچی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ فراخی اور اس کی رحمت کا اس کا شکر ادا نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنی سازشوں اور سرکشی پر جمے رہتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا ﴾ ’’اسی وقت بنانے لگیں وہ حیلے ہماری آیتوں میں“ یعنی وہ باطل میں کوشاں رہتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے سے حق کو باطل ثابت کریں ﴿قُلِ اللَّـهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ﴾ ” کہہ دیجئے ! اللہ حیلے بنانے (تدبیر کرنے) میں زیادہ تیز ہے“ کیونکہ بری چالوں کا وبال چال چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔ ان کے برے مقاصد انہی پر پلٹ جاتے ہیں اور وہ برے انجام سے محفوظ نہیں رہتے، بلکہ فرشتے ان کے اعمال لکھتے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو محفوظ کرلیتا ہے پھر وہ ان کو ان اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔