سورة التوبہ - آیت 115

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّىٰ يُبَيِّنَ لَهُم مَّا يَتَّقُونَ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ ایک گروہ کو ہدایت دے کر پھر گمراہ قرار دے تاوقیتکہ ان پر وہ ساری باتیں واضح نہ کرے جن سے انہیں بچنا چاہیے، بلا شبہ اللہ کے علم سے کوئی بات باہر نہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ہدایت سے نوازتا ہے اور اسے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کا حکم دیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس قوم پر اپنے احسان کی تکمیل کرتا ہے اور ان تمام ا مور کو ان پر واضح کردیتا ہے جن کے وہ محتاج ہیں اور ضرورت جن کا تقاجا کرتی ہے، پس وہ ان کے دین کے امور کے بارے میں گمراہ اور جاہل نہیں چھوڑتا۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کی دلیل ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت بندوں کی ان تمام ضروریات کو پورا کرتی ہے جن کے وہ اپنے دین کے اصول و فروع میں محتاج ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّىٰ يُبَيِّنَ لَهُم مَّا يَتَّقُونَ﴾ ” اللہ ایسا نہیں کہ وہ کسی قوم کو راہ راست دکھانے کے بعد گمراہ کر دے جب تک کہ ان پر وہ امور واضح نہ کر دے جن سے وہ بچیں۔‘‘ میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان پر وہ تمام امور واضح فرما دیتا ہے جن سے ان کو پرہیز کرنا چاہئے اور وہ ان پر عمل پیرا نہیں ہوتے، تو اللہ تعالیٰ ان کو واضح حق کو ٹھکرا دینے کی پاداش میں گمراہ کردیتا ہے، لیکن پہلا معنی زیادہ صحیح ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ ” بے شک اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔“ یعنی اس کا کامل اور ہر چیز کو شامل علم ہی ہے کہ اس نے تمہیں ان امور کی تعلیم دی جنہیں تم نہ جانتے تھے اور ہر وہ چیز تم پر واضح کردی ہے جس سے تم فائدہ اٹھاتے ہو۔