سورة التوبہ - آیت 66

لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بہانے نہ بناؤ حقیقت یہ ہے کہ تم نے ایمان کا اقرار کر کے پھر کفر کیا، اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو (اس کے عدم اصرار اور توبہ و انابت کی وجہ سے) معاف بھی کردیں تاہم ایک گروہ کو ضرور عذاب دیں گے، اس لیے کہ (اصل میں) وہی مجرم تھے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ﴾ ” اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف بھی کردیں۔“ ان کی توبہ و استغفار اور ان کی ندامت کی وجہ سے ﴿نُعَذِّبْ طَائِفَةً ﴾ ” تاہم بعض کو ضرور ہی عذاب دیں گے“ ﴿بِأَنَّهُمْ﴾ ” کیونکہ وہ“ یعنی اس سبب سے کہ ”﴿كَانُوا مُجْرِمِينَ ﴾ ” وہ گناہگار تھے“ یعنی اپنے کفر و نفاق پر قائم ہیں۔ یہ آیات کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جو کوئی اپنا بھید چھپاتا ہے خاص طور پر وہ بھید جس میں اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف سازش’ اللہ تعالیٰ’ اس کی آیات اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ استہزاء ہو تو اللہ تعالیٰ اس بھید کو کھول دیتا ہے’ اس شخص کو رسوا کرتا ہے اور اسے سخت سزا دیتا ہے اور جو کوئی کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت ثابتہ کے ساتھ کسی قسم کا استہزا کرتا ہے، یا ان کا تمسخر اڑاتا ہے، یا ان کو ناقص گردانتا ہے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استہزاء کرتا ہے یا آپ کو ناقص کہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر قسم کے گناہ کی توبہ قبول ہوجاتی ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔