سورة التوبہ - آیت 42

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغبر) اگر تمہارا بلاوا کسی ایسی بات کے لیے ہوتا جس میں قریبی فائدہ نظر آتا اور ایسے سفر کے جو آسان ہوتا تو (یہ منافق) بلا تامل تمہارے پیچھے ہو لیتے۔ لیکن انہیں راہ دور کی دکھائی دی (اس لیے جی چرانے لگے) اور (تم دیکھو گے کہ یہ) قسمیں کھا کر (مسلمانوں سے) کہیں گے اگر ہم مقدور رکھتے تو ضرور تمہارے ساتھ نکلتے۔ (افسوس ان پر) یہ (قسمیں کھا کر) اپنے کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ قطعا جھوٹے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ لَوْ كَانَ﴾ ” اگر ہوتا“ ان کا گھروں سے نکلنا ﴿عَرَضًا قَرِيبًا﴾” جلد حاصل ہوجانے والا سامان۔“ یعنی دنیوی نفع (مال غنیمت) سہل الحصول ہوتا ہے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ ہوتا ﴿سَفَرًا قَاصِدًا ﴾ ” سفر ہلکا“ قریب اور آسان ﴿لَّاتَّبَعُوكَ ﴾ تو (زیادہ مشقت نہ ہونے کی وجہ سے) ضرور آپ کی پیروی کرتے۔ ﴿وَلَـٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ﴾ ” لیکن لمبی نظر آئی ان کو مشقت“ یعنی مسافت بہت طویل تھی اور سفر پر صعوبت تھا، لہٰذا وہ آپ کے ساتھ جہاد میں شرکت چھوڑ کر بیٹھ رہے اور یہ عبودیت کی علامات نہیں ہیں۔ بندہ درحقیقت ہر حال میں اپنے رب کا عبادت گزار ہے، عبادت خواہ مشکل ہو یا آسان وہ اپنے رب کی عبودیت کو قائم کرتا ہے۔ یہی بندہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے۔ ﴿وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ ﴾ ”اور اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے، تو ضرور آپ کے ساتھ نکلتے۔“ یعنی وہ جہاد کے لئے نہ نکلنے اور پیچھے رہ جانے پر قسمیں اٹھا کر کہیں گے کہ وہ معذور تھے اور وہ جہاد کے لئے نکلنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔ ﴿ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ﴾ ” اپنے تئیں ہلاک کر رہے ہیں۔“ یعنی جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنے، جھوٹ بولنے اور خلاف واقع خبر دینے پر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ ﴿وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ﴾ ” اور اللہ جانتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔“ یہ عتاب منافقین کے لئے ہے جو غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہو کر پیچھے بیٹھ رہے اور مختلف قسم کے جھوٹے عذرپیش کئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان منافقین کو آزمائے بغیر کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے، ان کے محض معذرت پیش کرنے پر معاف فرما دیا، بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان منافقین کا عذر قبول کرنے کی جلدی پر آپ کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا۔