سورة البقرة - آیت 25

وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(لیکن ہاں) جن لوگوں نے (انکار و سرکشی کی جگ) ایمان کی راہ اختیار کی، اور ان کے کام بھی اچھے ہوئے، تو ان کے لیے (آگ کی جگہ ابدی راحت کے) باغوں کی بشارت ہے۔ (سرسبزوشاداب باغ) جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ( اور اس لیے وہ کبھی خشک ہونے والے نہیں) جب کبھی ان باغوں کا کوئی پھل ان کے حصے میں آئے گا (یعنی بہشتی زندگی کی کوئی نعمت ان کے حصے میں آئے گی) تو بول اٹھیں گے، یہ تو وہ نعمت ہے جو پہلے ہمیں دی جاچکی ہے (یعنی نیک عملی کا وہاجر ہے جس کے ملنے کی ہمیں دنیا میں خبر دی جا چکی ہے) اور (یہ اس لیے کہیں گے کہ) باہم دگر ملتی جلتی ہوئی چیزیں ان کے سامنے آئیں گی (یعنی جیسا کچھ ان کا عمل تھا، ٹھیک ویسی ہی بہشتی زندگی کی نعمت بھی ہوگی) علاوہ بریں ان کے لیے نیک اور پارسا بیویاں ہوں گی اور ان کی راحت ہمیشگی کی راحت ہوگی کہ اسے کبھی زوال نہیں !

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-قرآن کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تذکرہ فرما کر اس بات کو واضح کردیا ہے کہ ایمان اور عمل صالح ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عمل صالح کے بغیر ایمان ثمر آور نہیں اور ایمان کے بغیر اعمال خیر کی عنداللہ کوئی اہمیت نہیں۔ اور عمل صالح کیا ہے؟ جو سنت کے مطابق ہو اور خالص رضائے الٰہی کی نیت سے کیا جائے۔ خلاف سنت عمل بھی نامقبول اور نمود ونمائش اور ریاکاری کے لئے کئے گئے عمل بھی مردود ومطرود۔ 2- مُتَشَابِهًا کا مطلب یا تو جنت کے تمام میووں کا آپس میں ہم شکل ہونا ہے، یا دنیا کے میووں کے ہم شکل ہونا۔ تاہم یہ مشابہت صرف شکل یا نام کی حد تک ہی ہوگی، ورنہ جنت کے میووں کے مزے اور ذائقے سے دنیا کے میووں کو کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ جنت کی نعمتوں کی بابت حدیث میں ہے :[ مَا لا عَينٌ رَأَتْ، وَلا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ] (صحیح بخاری، تفسیر الم السجدۂ) ”نہ کسی آنکھ نے انہیں دیکھا، نہ کسی کان نے ان کی بابت سنا (اور دیکھنا سننا تو کجا) کسی انسان کے دل میں ان کا گمان بھی نہیں گزرا۔“ 3- یعنی حیض ونفاس اور دیگر آلائشوں سے پاک ہوں گی۔ 4- خُلُودٌ کے معنی ہمیشگی کے ہیں۔ اہل جنت ہمیشہ ہمیش کے لئے جنت میں رہیں گے اور خوش رہیں گے اور اہل دوزخ ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم میں رہیں گے اور مبتلائے عذاب رہیں گے۔ حدیث میں ہے۔ جنت اور جہنم میں جانے کے بعد ایک فرشتہ اعلان کرے گا ”اے جہنمیو! اب موت نہیں ہے اور اے جنتیو! اب موت نہیں ہے۔ جو فریق جس حالت میں ہے، اسی حالت میں ہمیشہ رہے گا۔“ (صحيح بخاري، كتاب الرقاق، باب يدخل الجنة سبعون ألفا- وصحيح مسلم كتاب الجنة